5%

" لیس لهم فی الآخرة من خلاق" آخرت میں ان کے لیے کوئی ثواب نہیں ہے، پس صرف کلمہ شہادتین کے اقرار اور اسلام کے مظاہرے سے معنوی نتائج حاصل نہیں ہوسکتے۔

سید : یہ آپ کا بیان صحیح ہے لیکن بغیر ایمان کے اسلام کا قطعا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ جیسا کہ بغیر اسلام کے ایمان کا کوئی نتیجہ نہیں کیا سورہ نمبر4 (نساء) آیت نمبر96 میں ارشاد نہیں ہے کہ" وَلاتَقُولُوالِمَنْ‏ أَلْقى‏ إِلَيْكُمُ السَّلام َلَسْتَ مُؤْمِناً" ( یعنی جو شخص تم پر سلام کرے اس سے یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں ہو۔) یہ آیت بہت بڑی دلیل ہے اس کی کہ ہم ظاہر پر مامور ہیں کہ جو شخص لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہہ دے اس کو پاک و طاہر مقدس اور اپنا بھائی سمجھیں اور اس کے ایمان کا انکار نہ کریں۔ یہ بات اس کی بہترین دلیل ہے کہ اسلام و ایمان ایک حکم میں ہیں۔

خیر طلب : اول تو یہ آیت ایک معین شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے ( جو اسامہ بن زید یا محلم بن جثامہ لیثی تھا) جس نے میدان جنگ میں ایک لا الہ الا اللہ کہنے والے کو اس خیال سے قتل کردیا تھا کہ اس نے محض خوف کی بنا پر کلمہ پڑھا ہے اور مسلمان ہوا ہے۔ لیکن آپ سمجھتے ہیں کہ عموم کا فائدہ دیتی ہے تو اس پہلو سے بھی ہم تمام مسلمانوں کو تا وقتیکہ ان سے کھلم کھلا کوئی عمل نہ دیکھا جائے، ضروریات دین کے منکر نہ ہوجائیں اور کفر و ارتداد کا اظہار نہ کریں، مسلمان اور پاک جانتے ہیں ان کے ساتھ اسلامی معاشرت رکھتے ہیں۔ ظاہر کے حدود سے تجاوز نہیں کرتے، ان کے باطن سے کوئی مطلب نہیں رکھتے اور نہ لوگوں کے باطنی حالات کی جستجو کرنے کا حق ہی رکھتے ہیں۔

مراتب ایمان

البتہ انکشاف حقیقت کے لیے عرض کرتا ہوں کہ اسلام و ایمان کے درمیان مورد اور محل کے لحاظ سے عموم مطلق اور عموم من وجہ کا فرق ہے۔ اس لیے کہ ایمان کے لیے کچھ درجات ہیں اور اس سلسلہ میں اہل بیت طہارت(ع) کے اخبار و احادیث اختلاف اقوال کو ختم کر کے حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں۔ چنانچہ امام بحق ناطق حضرت جعفر صادق علیہ السلام نے عمرو زبیری کی روایت میں فرمایا ہے۔

"أنّ‏ للإيمان‏ حالات‏ ودرجاتوطبقات و منازل فمنه الناقص البين نقصانه ومن الراجح الزائل رجحانه و منهالتام المنتهی تمامه"

یعنی ایمان کے لیے حالات و درجات اور طبقات و منازل ہیں۔ ان میں سے بعض ناقص ہیں جن کا نقصان ظاہر ہے بعض راجح ہیں جن کا رجحان زاید ہے، اور بعض ان میں سے مکمل ہیں جو انتہائے کمال پر پہنچے ہوئے ہیں۔)

ایمان ناقص ایمان کا وہی پہلا درجہ ہے جس کے ذریعے انسان کفر کے دائرے سے خارج ہوکر جماعت مسلمین میں شامل ہوتا ہے اور اس کی جان، مال، خون اور عزت مسلمانوں کی امان میں آجاتی ہے۔

ایمان راجح سے حدیث میں اس شخص کا ایمان مراد ہے جو ایمانی صفات کا حامل ہونے کی وجہ سے ایمان میں اس آدمی پر فوقیت حاصل کرے جو ان صفتوں سے محروم ہو۔ جن کی طرف بعض روایتوں میں ارشاہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ کتاب مستطاب کافی و