حافظ : میں انتہائی رغبت اور توجہ سے آپ کے بیانات سننے کے لیے حاضر ہوں۔
خیر طلب : اگر ایک باپخدا کے حکم سے کوئی جائداد اپنے بیٹےکو ہبہ کر دے اور باپ کے مرنے کے بعد اس قابض و متصرف بیٹے سے وہ جائداد چھین لی جائے تو اس کی کیا نوعیت ہوگی؟
حافظ : کھلی ہوئی بات ہے کہ جس طریقے سے آپبیان کر رہے ہیں غصب کرنے والا بدترین ظم کا مرتکبہوگا۔ لیکن اس ظالم و مظلوم اور غاصب و مغصوب سے آپ کا مقصود کون ہے اور کیا ہے؟ صاف صاف فرمائیے۔
خیر طلب: بالکل واضح بات ہے کہ جو ظلم ہماری جدہ ماجدہ صدیقہ کبری فاطمہ زہرا صلوۃ اللہ علیہا کے اوپر ہوا وہ کسی اور پر نہیں ہوا۔
حقیقت فدک اور اس کا غصب
کیونکہ خیبر کے قلعے فتح ہوگئے تو اشراف و مالکان فدک و عوالی ( یہان مدینے کے پہاڑوں کے دامن میں سمندر کے ساحل تک آگے پیچھے سات گائوں تھے جو بہت زر خیز تھے۔ نخلستان بکثرت تھے اور اراضی کو طول و عرض بہت وسیع تھا اس کے حددود اربعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک حد مدینے کے نزدیک کوہ احد، ایک حد عریش ، ایک سمندر کے کنارے اور ایک حد دومتہ الجندل تک تھی۔
رسول اللہ(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اس اور اس شرط پر صلح کی کہ سارے فدک کا نصف ان کا اور نصف حصہ رسول خدا(ص) کی ملکیت ہوگا۔ جیسا کہ صاحب معجم البلدان یاقوت حموی نے فتح البلدان جلد ششم ص343 میں، احمد بن یحیی بلاذری بغدادی متوفی سنہ279 نے اپنی تاریخ میں، ابن ابی الحدید معتزلی نے شرح نہج البلاغہ جلد چہارم مطبوعہ مصر ص78 میں، ابوبکر احمد بن عبدالعزیز جوہری سے نقل کرتے ہوئے، محمد بن جریر طبری نے تاریخ کبیر میں اور آپ دوسرے محدثین و مورخین نے درج کیا ہے۔
آیہ و آت ذا القربیٰ حقہ کا نزول
مدینہ منورہ میں واپسی کے بعد رب جلیل کی طرف سے جبرئیل نازل ہوئے اور سورہ نمبر17 (بنی اسرائیل) کی آیت نمبر28 پڑھی کہ:
"وَآتِ ذَاالْقُرْبى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلاتُبَذِّرْتَبْذِيراً"
یعنی اپنے اقربا نیز فقیروں اور مجبور مسافروں کا حق ادا کرو اور اسراف ہرگز نہ کرو۔
رسول خدا(ص) سوچنے لگے کہ ذوی القربی کون ہیں اور ان کا حق کیا ہے؟ جبرئیل پھر حاضر ہوئے اور عرض کیا خدا فرماتا ہے " ادفع فدکا الی فاطمہ" فدک فاطمہ(ع) کو دے دیجئے! آں حضرت(ص) نے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کو بلایا اور فرمایا: "إنّ اللّه أمرني أن أدفع إليك فدكا" بتحقیق خدا نے مجھ کو حکم دیا ہے کہ فدک تم کو دیدوں