5%

سینے پر تھا یہاں تک کہ آپ نے انتقال فرمایا۔ یعنی میں دیکھ رہی تھی کہ کوئی وصیت نہیں کی یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی وصیت کی ہو اور ام المومنین کو پتہ نہ چلا ہو جب کہ آخر وقت تک رسول اللہ(ص) کا سر مبارک ان کے سینے پر تھا؟ اگر وصیت کی ہوتی تو ام المومنین رضی اللہ عنہا اس کو ضرور نقل کرتیں۔ پس وصیت کا قصہ سرے سے ہی ختم ہو جاتا ہے۔

خیر طلب: حدیث مدینہ کے بارے میں آپ نے زیادتی فرمائی کیونکہ میں پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہ اس پر فریقین کا اتفاق ہے اور یہ تقریبا تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہے جیسا کہ آپ کے اکابر علماء نے اپنی معتبر کتابوں میں مثلا امام ثعلبی، فیروز آبادی حاکم نیشاپوری محمد جزری، محمد بن جریر طبری، سیوطی، سخادی متقی ہندی، محمد بن یوسف گنجی شافعی، محمد بن طلحہ شافعی، قاضی فضل بن روز بہان منادی، ابن حجر مکی، خطیب خوارزمی، سلیمان قندوزی ، حنفی، ابن مغازل فقیہ شافعی، دیلمی، ابن طلحہ شافعی، میر سید علی ہمدانی، حافظ ابونعیم اصفہانی ، شیخ الاسلام حموینی، ابن ابی الحدید، معتزلی، طبرانی، سبط ابن جوزی اور امام ابوعبدالرحمن نسائی وغیرہ نے نقل کیا ہے۔ رہا موضوع وصایت اور رسول اللہ(ص) سے مروی نصوص تو وہ بکثرت، بے شمار اور متواترات مسلمہ میں سے ہیں۔ اور سوا کینہ پرور، ضدی متعصب اور جاہل انسان کے قطعا کوئی وصیت کا منکر نہیں ہوسکتا ۔

نواب : خلیفہ پیغمبر(ص) ہی آں حضرت(ص) کا وصی بھی ہے جو آںحضرت(ص) کے گھریلو کاموں کو بھی انجام دیتا ہے۔ جیسا کہ خلفاء رضی اللہ عنہم انجام دیتے تھے اور ازواج رسول (ص) کے وظیفہ ادا کرتے تھے۔ یہ کہاں سے معلوم ہواکہ علی کرم اللہ وجہہ کو خاص طور سے وصایت پر معین فرمایا تھا؟

خیر طلب : آپ نے صحیح فرمایا۔ جو بدیہی چیز ہے کہ رسول اللہ(ص) کا خلیفہ اور وصی ایک ہی شخص تھا چنانچہ دلائل و نصوص خلافت کو گذشتہ راتوں میں عرض کرچکا ہوں۔ اور آن حضرت کو وصایت نصوص جلیہ کےساتھ بالکل واضح و آشکار ہے کہ جس موقع پر دوسرے لوگ سازش اور سیاسی چالوں میں منہمک تھے وصی رسول(ص) آں حضرت کے غسل اور کفن و دفن میں مشغول تھا، اور بعد کو بھی وہ امانتیں ادا کرنے میں مصروف رہا جو آں حضرت کے پاس جمع تھیں۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس اور ہمارے آپ کے تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے۔

وصایت کے بارے میں روایتیں

اب میں مجبور ہوں کہ اس مطلب کے ثبوت میں چند مختصر حدیثوں کی طرف اشارہ کروں تاکہ شیخ صاحب پھر یہ نہ فرمائیں کہ ہمارے علماء کے نزدیک مردود ہے۔ امام ثعلبی مناقب اور اپنی تفسیر میں، ابن مغازلی فقیہ شافعی مناقب میں اور میر سید علی ہمدانی مودت القربیمودت ششم میں خلیفہ دوم عمر ابن خطاب سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا :

" ان رسول الله لما عقد المواخاة بين اصحابه قال هذا علی اخی فی الدنيا والآخرة و خليفتی فی اهلی و وصيي فی امتی و وارث علمی و قاضی دينی ماله منی مالی منه نفعه نفعی و ضره ضری من‏أحبه‏فقدأحبني‏