یہ درست ہے کہ علی علیہ سلام انسان کامل کا مظہر ہیں اور یہ بھی درست ہے کہ انسان انسانیت کی اعلیٰ مثالوں کو دوست رکھتاہے لیکن اگر علی علیہ سلام ان تمام انسانی فضائل کے حامل ہوتے جوکہ وہ تھے وہ حکمت، وہ علم، وہ فدا کاریاں، وہ ایثار، وہ تواضع و انکساری، وہ ادب، وہ ادب، وہ لطف و محبت، وہ ضعیف پروری، وہ عدالت، وہ حریت پسندی، وہ احترام انسانیت، وہ شجاعت، وہ مروت و مرادنگی جو دشمن کی نسبت تھی اور بقول مولوی:
در شجاعت شیرِ ربّا نسیتی
در مروت خود کہ داند کیستی؟
تم شجاعت میں شیر خدا ہو
لیکن نہ معلوم مروت میں کیا ہو؟
وہ سخاوت اور جود و کرم ۔۔۔ اگر علی علیہ سلام یہ تمام (صفات) رکھتے جیسا کہ رکھنے تھے اور رنگ الہی نہ رکھتے، تو مسلماً اس قدر مہر و محبت پیدا کرنے والے نہ ہوتے جیسے کہ آج ہیں۔ علی علیہ سلام اس اعتبار سے محبوب ہیں کہ خدا کے ساتھ ان کا تعلق ہے۔ ہمارے دل غیر شعوری طور پر پوری گہرائی کے ساتھ حق کے ساتھ پیوستہ ہیں اور چونکہ علی علیہ سلام کو حق کی عظیم نشانی اور صفات حق کا مظہر سمجھتے ہیں، اس کے ساتھ عشق کرتے ہیں۔ در حقیقت عشق علی علیہ سلام کے پیچھے حق کے ساتھ روح کا وہ رشتہ ہے جو ہمیشہ فطرت میں ودیعت کیا گیا ہے اور چونکہ فطرت جاودانی ہے، علیج کی محبت بھی جاوداں ہےٍ۔
علی علیہ سلام کے وجود میں روشن پہلو بہت زیادہ ہیں لیکن جس چیز نے علی علیہ سلام کو ہمیشہ درخشندہ اور تاباں قرار دے رکھا ہے وہ ان کا ایمان اور اخلاص ہے اور یہی ہے جس نے ان کو جذبہئ الہیٰ دے دیا ہے۔