کہ وہ اپنی اور اس کائنات کی خلقت پر غور کریاور دیکھے کہ یہ کارخانہ حیات کس نظم وانضباط کے ساتھ چل رہا ہے ۔ انسان اگر غور و فکر کرے تو خود اپنی پیدائش اور عالم گرد و پیش کے مشاہدات اس پر عرفان ذات اور معرفت خداوند متعال کے بہت سے سر بستہ راز کھول دیں گے ۔اس سلسلے میں قرآن مجید نے جن دلائل سے ذات باری تعالیٰ کی توحید پر استشہاد کیا ہے ان میں سے چند کا اجمالی تذکرہ ذیل میں کیا جا رہا ہے۔
پہلی دلیل:
اگر گوش اور دیدہ بینا کو وا کرکے ہم کائنات کی کھلی کتاب کا مطالعہ کریں تو اس کے ورق ورق سے ایک پروردگار کے وجود کا اعلان ہوتا دکھائی دے گا۔اس کے اندر سے یہ پکار سنائی دے گیکہ اس کائنات کی تخلیق با لحق ہوئی ہے ۔انسان بے ساختہ اس بات کے اقرار پر مجبور ہوگا کہ (ربّنا ما خلقت ھذا باطل )(1)
''اے ہمارے رب ! تونے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا ۔
دوسری دلیل:
قرآن اس بات کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ انسان کائنات میں کار فرما نظام ِ ربوبیت کا بے لاگ مطالعہ کرنے بیٹھے اور اس کے وجدان میں ایک ربّ العالمین ہستی کے ہونے کایقین انگڑائیاں نہ لینے لگے ۔یہ ممکن ہے کہ انسان سرکشی ،اور تمرّد اور غفلت کی بنا پر ہر چیز سے انکار کردے ، لیکن وہ اپنی فطرت سے انکار نہیں کرسکتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) آل عمران 3: 191