50%

اس کی فطرت سلیمہ کے خمیر میں خدا پرستی کا جذبہ خوابیدہ حالت میں ودیعت کیا گیا ہے ۔ جب اس کی غفلت کا پردہ چاک ہوتا ہے تو اس کا وجدان خود اس کی رہنمائی کرکے اسے اس کے مدّعا تک پہنچادیتا ہے ۔

چنانچہ قرآن مجید نے اس حقیقت کی نشاندہی ان الفاظ میں کی ہے ۔

( بل الانسان علیٰ نفسه بصیر ة) (1)

''بلکہ انسان خود بھی اپنی حالت پر مطلّع ہے ''

تیسری دلیل :

قرآن مجید میں ایسے مقامات ہیں جن میں ایک وسیع البنیاد نظام ربوبیت سے توحید باری تعالیٰ پر استدلال کیا گیا ہے ،بے شمار ہیں ۔لیکن یہاں طوالت کے خوف سے صرف چند ارشادات پر اکتفا کیا جائے گا ۔

انسان سے مخاطب ہو کر فرمایا گیا

( فلینظر الانسان الیٰ طعامه انّا صببنا المأئَ صبّا ثمّ شققنا الارض شقاًفانبتنا فیها حبّا) (2)

''پس انسان کو چاہیے کہ اپنی غذا کی طرف غور کرےبشک ہم ہی نے خوب پانی برسایا پھر ہم نے زمین کو جابجا پھاڑدیاپھر ہم نے اس میں غلّہ پیدا کیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سورہ مبارکہ قیامت ،75:14

(2)سورہ مبارکہ عبس ،24۔۔27