50%

کو جن سے وہ کسی نہ کسی صورت میں تمتّع حاصل کرتا رہا ،مقام الوہیت پر لا بٹھایااور اپنی نادانی اور کوتاہ نظری سے انہیں خدایا خدا تک پہنچنے کا ذریعہ تصوّر کرتا رہادرج بالا آیہ کریمہ میں اس باطل تصوّر کی نفی کرتے ہوئے انسان پر یہ حقیقت واشگاف کی جارہی ہے کہ وہ ذات جونفع رساں اور مسلسل ا پنی بے پایان رحمت عمومی کے خزانے نچھاور کرنے والی ہے ہی ،منصب الوہیت کی سزاواراور اس لائق ہے کہ جبینِ نیاز اسی کے سامنے جھکائی جائے ۔وہی لازوال ہستی جو تمھارے معاش کی حاجتوں کو پورا کرنے والی اورمعاد کی حاجتوںاور ضرورتوں کو بھی فراہم کرنے والی ہے اس بات کی مستحق ہے کہ تم اپنا سر تسلیم اور جبیں بندگی اسی کے سامنے خم کرو اور سبھی معبودان باطلہ کی پرستش و بندگی سے باز آجاو۔

دو سری دلیل:

قرآن مجید سورہ بقرہ کی 164 ویں آیت میں اسی عقلی و نظری استدلال کو بروئے کار لاتے ہوئے انسان کو تخلیق کائنات اوراختلاف لیل ونہار کے مطالعہ کی دعوت دیتا ہے ۔ ارشاد ربّ العزت ہے ۔

(انّ فی خلق السمّوات والارض واختلاف الّیلِ والنّهارِلایات لّقومِ یعقلون )

''بے شک آسمانوںاور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کی گردش میں عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں ''