50%

اس آیہ کریمہ میں انسان کی توجہ اس طرف مبذول کرائی جارہی ہے کہیہ کائنات ارضی و سماوی تو خود مخلوق ہے لہذا یہ الہٰ کیسے ہوسکتی ہے منصب الوہیت پر فائز ہونے کی حقدار تو وہی ذات ہو سکتی ہے جو پیدا نہ کی گئی ہو ،اس لئے کہ پیدا کی جانے والی ذات حادث تصوّر ہو گی اور حادث ذات کبھی الہٰ نہیں ہوسکتی۔

تیسری دلیل:

قرآن مجید میں ایک مقام پرخداوندمتعال نے اپنی خالقیت وربوبیت کو اپنی الوہیت ومعبودیت کی عقلی دلیل کے طور پر ان الفاظ میں پیش کیا ہے ۔

(یا أيّها الناس اعبدوا ربّکم الذی خلقکم والذین من قبلکم لعلّکم تتّقون الذی جعل لکم الارض فراشاًوّالسمائَ بنائًوانزل من السّمائِ مائً فاخرج به من الثّمرات رزقاًلّکم فلا تجعلوا للّه انداداًوّانتم تعلمون ) (1)

'' اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمھیں پیدا کیا اور ان لوگوں کو بھی جو تم سے پیشتر تھے تاکہ تم پرہیز گار بن جاو۔جس نے تمھارے لئے زمین کو فرش اور آسمان کو عمارت بنایا اور آسمانوں سے پانی برسایا پھر اس کے ذریعے تمھارے کھانے کے لئے پھل پیدا کئے پس تم اﷲ کے لئے شریک نہ ٹھراو حالانکہ تم جانتے ہو ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سورہ مبارکہ بقرہ،2:21۔22