اس آیہ کریہ میں اس حقیقت کی نشاندہی ہے کہ بنی نوع انسان کی تمام گزشتہ اور آئندہ
نسلوں اور انسانیت کے تمام طبقوں کو معرض وجود میں لانے والی اور ان کی کفالت کرنے والی واحد ہستی ہی اس امر کی مستحق ہے کہ اس کے سامنے سر بندگی اور جبین نیاز خم کی جائے ۔اس انداز استدلال سے اس بات کا استشہاد کیا گیا ہے کہ جب سب کو پیدا کرنے والی اور پرورش وتربیت کرنے والی ذات رب ذو الجلال کی ہے تو انسان کس وجہ سے معبودان ِ باطلہ کو اس کے ساتھ عبادت میں شریک کرتا ہے ۔گویا خالقیت اور ربوبیت میں یکتا اور واحد ہونا اس کی الوہیت و معبودیت میں یکتا و واحد ہونے پر محکم دلیل ہے ۔کیوں کہ یہ بات عقل ِسلیم کے خلاف ہے کہ انسان کو پردہ نیستی سے وجود میں لانے والی اور اس کی تمام فطری اور جبلّی ضرورتوں کی تکمیل و تسکین کا سامان فراہم کرنے والی تو اس کی ذات ہو اور وہ عبادت کسی اور کی کرتا رہے ۔جب وہ اوّلین وآخرین سب کا خالق و مالک اور پروردگار ہے تو اسے چھوڑ کر کسی مخلوق کی عبادت کرنا یا اﷲ کی عبادت کے ساتھ اس کو شریک کرلینا عقل و فہم کی رو سے کب جائز وروا ہوگا۔
مشاہداتی دلائل:
خدا کی ہستی اور اثبات توحیدپرقرآن ِ مجید کا طرز واسلوبِ استدلال اس ہمہ گیر ربوبیت کے نظام میں تعقّل و تفکّر اورتدبّر کی دعوت دیتاہے جو اس کائنات بسیط میں ایک خاص نظم و ضبط اور ترتیب و قاعدے کے ساتھ بندھا ہوا ہے ۔چنانچہ قرآن جا بجا انسان کوعالم انفس ،آفاق میں تدبّر کی دعوت دیتا ہے اور اس سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے