پروٹسٹنٹ تحریک کو اپنالیاتھالیکن اس کی نشودونما کو انگلینڈ سے کوئی تعلق نہ تھا بلکہ اس کی نشوو نما جاگیردار ممالک میں ہوئی تھی۔
اگرمارکسیت کے اس نظریۂ ارتقاء کو عالم کے تیسرے عظیم المرتبت دین اسلام پر منطبق کیاجائے تو نظریہ وانطباق کااختلاف اور بھی نمایاں طور پر سامنے آجائے گا اس لئے کہ یورپ کی عالمی حکومت اگر ایک عالمی خدا کی طالب ہوسکتی ہے تو جزیرة العرب میں توکوئی عالمی حکومت نہ تھی وہاں تو طوائف الملو کی کادور دورہ تھا وہاں تو ہر قوم ایک جداگانہ خدا کی پرستار تھی۔
آخر اس پس افتادہ ملک میں ایک رب العالمین کا تصور کیسے پیداہوگیا؟اگر خدائی کا تصور قومیت سے ملکیت اور ملکیت سے عالمیت کی طرف منتقل ہوتاہے تو پھرسوال یہ پیداہوتاہے کہ جزیرة العرب میں اس تصورنے قومیت سے عالمیت کارخ کیونکر اختیار کرلیااور مختلف خداؤں کے پرستار توحید کے پلیٹ فارم پر کس طرح جمع ہوگئے۔
مارکسیت کا خیال ہے کہ فلسفی افکار بھی اپنے اقتصادی اور مادی حالات کا نتیجہ ہوتے ہیں جیساکہ( CAUSTRNTINOFE )لکھتاہے:
وہ قوانین جو ہر اجتماع کی تنظیم میں شریک ہوتے ہیں اور خصوصیت کے ساتھ اشتراکی معاشرہ کے لئے ضروری ہیں۔ان میں سے ایک قانون یہ بھی ہے کہ اجتماعی ادراک اجتماعی حالات کا تابع ہوتاہے۔چنانچہ انسان کے تمام اجتماعی سیاسی،حقوقی اور فلسفی افکار اس کے مادی حالات کے ذہنی انعکاس اور