15%

تجربیاتی علوم

ہمارے خیال میں اس مقام پر زیادہ توقف اس لئے مناسب نہیں ہے کہ ہم نے مارکسیت کی زبانی اب تک ایک ہی نغمہ سناہے جسے وہ تاریخ کے ہر موڑپر گایاکرتی ہے۔

علوم کے بارے میں بھی اس کا یہی خیال ہے کہ یہ مادی اور اقتصادی حالات کا نتیجہ ہیں ان کا تنوع اور ارتقاء بھی ذرائع پیداوار کے رنگارنگ کیفیات کا اثر ہیں۔

اس کا نظریہ یہ ہے کہ اٹھارہویں صدی کے بخاری آلات اس وقت کی سرمایہ دارانہ ضرورتوں کا نتیجہ ہیں۔چنانچہ روجیہ غارودی نے اس مطلب کی صراحت بھی کردی ہے کہ:

ذرائع پیداوار کی ترقی طبیعی علوم کے سامنے مسائل پیش کرتی ہے تاکہ وہ ان میں بحث وفکر کرکے ترقی کریں اور یہی وجہ ہے کہ ایک ہی وقت میں ایک ہی خیال مختلف علماء کے ذہن میں پیداہوتاہے جیساکہ عمل اور حرارت کے توازن کا نظریہ ہے کہ وہ فرانس میں کارنو، انگلینڈ میں گول اور جرمنی میں مایر کے ذہن میں ایک ہی وقت پیداہواتھا،یہ بھی قابل لحاظ ہے کہ یہ ذرائع جس طرح مسائل کا اضافہ کرتے ہیں اسی طرح آلات ووسائل مہیاکرکے ان کے حل کرنے کی صورتیں بہم پہنچاتے ہیں گویا کہ یہی ذرائع اول وآخر تجربہ کی بنیاد ہیں۔ (الروح الخربیہ فی العلوم،ص11تا13)

مارکسیت کے اس بیان پر ہمارے ملاحظات درج ذیل ہیں:

الف: دور حاضر کو الگ کرلیاجائے تویہ کہاجاسکتاہے کہ آج سے پہلے دنیا کے تمام معاشرے ذرائع پیداوار کے اعتبار سے ایک ہی منزل میں تھے۔ہر مقام پر معمولی زراعت اور دستکاری کا دور دورہ تھا۔مختلف شکلوں میں کوئی جوہری اور واقعی فرق نہ تھا۔ایسے