2%

وقَمَرَهَا آيَةً مَمْحُوَّةً مِنْ لَيْلِهَا - وأَجْرَاهُمَا فِي مَنَاقِلِ مَجْرَاهُمَا - وقَدَّرَ سَيْرَهُمَا فِي مَدَارِجِ دَرَجِهِمَا - لِيُمَيِّزَ بَيْنَ اللَّيْلِ والنَّهَارِ بِهِمَا - ولِيُعْلَمَ عَدَدُ السِّنِينَ والْحِسَابُ بِمَقَادِيرِهِمَا - ثُمَّ عَلَّقَ فِي جَوِّهَا فَلَكَهَا ونَاطَ بِهَا زِينَتَهَا - مِنْ خَفِيَّاتِ دَرَارِيِّهَا ومَصَابِيحِ كَوَاكِبِهَا - ورَمَى مُسْتَرِقِي السَّمْعِ بِثَوَاقِبِ شُهُبِهَا - وأَجْرَاهَا عَلَى أَذْلَالِ تَسْخِيرِهَا مِنْ ثَبَاتِ ثَابِتِهَا - ومَسِيرِ سَائِرِهَا وهُبُوطِهَا وصُعُودِهَا ونُحُوسِهَا وسُعُودِهَا.

ومنها في صفة الملائكة

ثُمَّ خَلَقَ سُبْحَانَه لإِسْكَانِ سَمَاوَاتِه - وعِمَارَةِ الصَّفِيحِ الأَعْلَى مِنْ مَلَكُوتِه - خَلْقاً بَدِيعاً مِنْ مَلَائِكَتِه - ومَلأَ بِهِمْ فُرُوجَ فِجَاجِهَا وحَشَا بِهِمْ فُتُوقَ أَجْوَائِهَا وبَيْنَ فَجَوَاتِ تِلْكَ الْفُرُوجِ زَجَلُ الْمُسَبِّحِينَ - مِنْهُمْ فِي حَظَائِرِالْقُدُسِ وسُتُرَاتِ الْحُجُبِ،

اورماہتاب کو رات کی دھندلی نشانی قراردے دیا اور دونوں کو ان کے بہائو کی منزل پرڈال دیا ہے اور ان کی گزر گاہوں میں رفتارکی مقدار معین کردی ہے تاکہ ان کے ذریعہ دن اور رات کا امتیاز قائم ہو سکے اور ان کی مقدار سے سال وغیرہ کا حساب کیا جا سکے۔پھر فضائے بسیط میں سب کے مدار معلق کردئیے اور ان سے اس زینت کو وابستہ کردیا جو چھوٹے چھوٹے تاروں اوربڑے بڑے ستاروں کے چراغوں سے پیدا ہوئی تھی۔آوازوں کے چرانے والوں کے لئے ٹوٹتے تاروں سے سنگسار کا انتظام کردیا اور انہیں بھی اپنے جبر و قہر کی راہوں پر لگا دیا کہ جو ثابت ہیں وہ ثابت رہیں۔جو سیار ہیں وہ سیار رہیں۔بلند و پست نیک و بدسب اسی کی مرضی کے تابع رہیں ۔

(اوصاف ملائکہ کا حصہ)

اس کے بعد اس نے آسمانوں کوآباد کرنے اوراپنی سلطنت کے بلند ترین طبقہ کو بسانے(۱) کیلئے ملائکہ جیسی انوکھی مخلوق کو پیدا کیا اور ان سے آسمانی راستوں کے شگافتوں کو پر کردیا اورفضا کی پہنائیوں کو معمور کردیا۔انہیں شگافوں کے درمیان تسبیح کرنے والے فرشتوں کی آوازیں قدس کی چار دیواری ' عظمت کے

(۱)واضح رہے کہ ملائکہ اور جنات کا مسئلہ غیبیات سے تعلق رکھتاہے اوراس کاعلم دنیا کے عام وسائل کے ذریعہ ممکن نہیں ہے۔قرآن مجید نے ایمان کے لئے غیب کے قارار کو شرط اساسی قراردیا ہے لہٰذا اس مسئلہ کا تعلق صرف صاحبان ایمان سے ہے۔دیگر افراد کے لئے دیگر ارشادات امام سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔لیکن اتنی بات تو بہر حال واضح ہو چکی ہے کہ آسمانوں کے اندر آبادیاں پائی جاتی ہیں اور یہاں کے افراد کا وہاں زندہ نہ رہ سکنا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہاں کے باشندے بھی زندہ نہ رہ سکیں۔مالک نے ہر جگہ کے باشندہ میں وہاں کے اعتبار سے صلاحیت حیات رکھی ہے اور اس سامان زندگی عنایت فرمایا ہے۔امام صادق کا ارشاد گرامی ہے کہ پروردگار عالم نے دس لاکھ عالم پیدا کئے ہیں اور دس لاکھ آدم ۔اور ہماری زمین کے باشندے آخری آدم کی اولاد میں ہیں (الہیتہ و الا سلام شہرستانی)