4%

(۱۴۵)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

فناء الدنيا

أَيُّهَا النَّاسُ - إِنَّمَا أَنْتُمْ فِي هَذِه الدُّنْيَا غَرَضٌ تَنْتَضِلُ فِيه الْمَنَايَا - مَعَ كُلِّ جَرْعَةٍ شَرَقٌ وفِي كُلِّ أَكْلَةٍ غَصَصٌ - لَا تَنَالُونَ مِنْهَا نِعْمَةً إِلَّا بِفِرَاقِ أُخْرَى - ولَا يُعَمَّرُ مُعَمَّرٌ مِنْكُمْ يَوْماً مِنْ عُمُرِه - إِلَّا بِهَدْمِ آخَرَ مِنْ أَجَلِه - ولَا تُجَدَّدُ لَه زِيَادَةٌ فِي أَكْلِه إِلَّا بِنَفَادِ مَا قَبْلَهَا مِنْ رِزْقِه - ولَا يَحْيَا لَه أَثَرٌ إِلَّا مَاتَ لَه أَثَرٌ - ولَا يَتَجَدَّدُ لَه جَدِيدٌ إِلَّا بَعْدَ أَنْ يَخْلَقَ لَه جَدِيدٌ - ولَا تَقُومُ لَه نَابِتَةٌ إِلَّا وتَسْقُطُ مِنْه مَحْصُودَةٌ - وقَدْ مَضَتْ أُصُولٌ نَحْنُ فُرُوعُهَا - فَمَا بَقَاءُ فَرْعٍ بَعْدَ ذَهَابِ أَصْلِه!

ذم البدعة

منها - ومَا أُحْدِثَتْ بِدْعَةٌ إِلَّا تُرِكَ بِهَا سُنَّةٌ - فَاتَّقُوا الْبِدَعَ والْزَمُوا الْمَهْيَعَ - إِنَّ عَوَازِمَ الأُمُورِ أَفْضَلُهَا - وإِنَّ مُحْدِثَاتِهَا شِرَارُهَا.

(۱۴۵)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

(دنیا کی فنا کے بارے میں )

لوگو! تم اس دنیا میں زندگی گذار رہے ہو جہاں موت کے تیروں کے مستقل ہدف ہو۔یہاں ہر گھونٹ کے ساتھ اچھو ہے اور ہر لقمہ کے ساتھ گلے کا پھندہ۔یہاں کوئی نعمت اس وقت تک نہیں ملتی ہے جب تک دوسری ہاتھ سے نکل نہ جائے اور یہاں کی زندگی میں ایک دن کابھی اضافہ نہیں ہوتا ہے جب تک ایک دن کم نہ ہو جائے یہاں کے کھانے میں زیادتی بھی پہلے رزق کے خاتمہ کے بعد ہاتھ آتی ہے اور کوئی اثر بھی پہلے نشان کے مٹ جانے کے بعد ہی زندہ ہوتا ہے۔ہر جدید کے لئے ایک جدید کو قدیم بننا پڑتا ہے اور ہر گھاس کے اگنے کے لئے ایک کھیت کو کاٹنا پڑتا ہے۔پرانے بزرگ جو ہماری اصل تھے گزر گئے اب ہم ان کی شاخیں ہیں اور کھلی ہوئی بات ہے کہ اصل کے چلے جانے کے بعد فرع کی بقا ہی کیا ہوتی ہے۔

(مذمت بدعت)

کوئی بدعت اس وقت تک ایجاد نہیں ہوتی ہے جب تک کوئی سنت مرنہ جائے۔لہٰذا بدعتوں سے ڈرو اور سیدھے راستہ پر قائم رہو کہ مستحکم ترین معاملات ہی بہتر ہوتے ہیں اور دین میں جدید ایجادات ہی بد ترین شے ہوتی ہے۔