بِالصَّبْرِ عَلَى طَاعَتِه - والْمُجَانَبَةِ لِمَعْصِيَتِه - فَإِنَّ غَداً مِنَ الْيَوْمِ قَرِيبٌ - مَا أَسْرَعَ السَّاعَاتِ فِي الْيَوْمِ - وأَسْرَعَ الأَيَّامَ فِي الشَّهْرِ - وأَسْرَعَ الشُّهُورَ فِي السَّنَةِ - وأَسْرَعَ السِّنِينَ فِي الْعُمُرِ! (۱۸۹) ومن كلام لهعليهالسلام في الإيمان ووجوب الهجرة أقسام الإيمان فَمِنَ الإِيمَانِ مَا يَكُونُ ثَابِتاً مُسْتَقِرّاً فِي الْقُلُوبِ - ومِنْه مَا يَكُونُ عَوَارِيَّ بَيْنَ الْقُلُوبِ والصُّدُورِ - إِلَى أَجَلٍ مَعْلُومٍ - فَإِذَا كَانَتْ لَكُمْ بَرَاءَةٌ مِنْ أَحَدٍ فَقِفُوه - حَتَّى يَحْضُرَه الْمَوْتُ - فَعِنْدَ ذَلِكَ يَقَعُ حَدُّ الْبَرَاءَةِ. وجوب الهجرة والْهِجْرَةُ قَائِمَةٌ عَلَى حَدِّهَا الأَوَّلِ - مَا كَانَ لِلَّه فِي أَهْلِ الأَرْضِ حَاجَةٌ مِنْ مُسْتَسِرِّ | اس کی اطاعت کے انجام دینے اور معصیتوں سے پرہیز کرنے پر صبر کے ذریعہ۔اس لئے کہ کل کا دن آج کے دن سے دور نہیں ہے۔دیکھو دن کی ساعتیں 'مہینہ کے دن ' سال کے مہینے اور زندگی کے سال کس تیزی سے گزر جاتے ہیں۔ (۱۸۹) آپ کا ارشاد گرامی (ایمان اور وجوب ہجرت کے بارے میں ) ایمان(۱) کا ایک وہ حصہ ہے جودلوں میں ثابت اورمستحکم ہوتا ہے اور ایک وہ حصہ ہے جو دل اور سینے کے درمیان عارضی طور پر رہتا ہے لہٰذا اگر کسی سے برائت اور بیزاری بھی کرنا ہو تو اتنی دیر انتظار کرو کہ اسے موت آجائے کہ اس وقت بیزاری برمحل ہوگی۔ ہجرت(۲) کا قانون آج بھی وہی ہے جو پہلے تھا۔اللہ کسی قوم کی متحاج نہیں ہے چاہے جو خفیہ طور پر |
(۱)ایمان وہ عقیدہ ہے جو انسان کے دل کی گہرائیوں میں پایا جاتا ہے اورجس کا واقعی اظہار انسان کے عملاور کردار سے ہوتا ہے کہ عمل اور کردارکے بغیر ایمان صرف ایک دعویٰ رہتا ہے جسکی کوئی تصدیق نہیں ہوتی۔
لیکن یہ ایمان بھی دو طرح کا ہوتا ہے۔کبھی انسانکے دل کی گہرائیوں میں یوں پیوست ہو جاتا ہے کہ زمانہ کے جھکڑ بھی اسے ہلاک نہیں سکتے ہیں اور کبھی حالات کی بنا پر تزتزل کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔حضرت نے اس دوسری قسم کے پیش نظر ارشاد فرمایا ہے کہ کسی انسان کی بد کرداری کی بنا پر برائت کرنا ہے تو اتنا انتظر کرلو کہ اسے موت آجائے تاکہ یہ یقین ہو جائے کہ ایمان اس کے دل کی گہرائیوں میں ثابت نہیں تھا ورنہ تو بہ و استغفار کرکے راہ راست پرآجاتا ۔
(۲)ہجرت کا واقعی مقصد جان کا بچانا نہیں بلکہ ایمان کا بچانا ہوتا ہے لہٰذا جب تک ایمان کے تحفظ کا انتظام نہ ہو جائے اس وقت تک ہجرت کاکوئی مفہوم نہیں ہے اور جب معرفت حجت کے ذریعہ ایمان کے تحفظ کا انتظام ہو جائے تو سمجھو کہ انسان مہاجر ہوگیا ' چاہے اس کا قیام کسی منزل پر کیوں نہ رہے۔