6%

تَخَفَّفُوا تَلْحَقُوا فَإِنَّمَا يُنْتَظَرُ بِأَوَّلِكُمْ آخِرُكُمْ.

قال السيد الشريف أقول إن هذا الكلام لو وزن بعد كلام الله سبحانه وبعد كلام رسول اللهصلى‌الله‌عليه‌وآله بكل كلام لمال به راجحا وبرز عليه سابقا. فأما قولهعليه‌السلام تخففوا تلحقوا فما سمع كلام أقل منه مسموعا ولا أكثر منه محصولا وما أبعد غورها من كلمة وأنقع نطفتها من حكمة وقد نبهنا في كتاب الخصائص على عظم قدرها وشرف جوهرها.

(۲۲)

ومن خطبة لهعليه‌السلام

حين بلغه خبر الناكثين ببيعته وفيها يذم عملهم ويلزمهم دم عثمان ويتهددهم بالحرب

اپنا بوجھ(۱) ہلکا کر لو تاکہ پہلے والوں سے ملحق ہو جائو کہ ابھی تمہارے سابقین سے تمہارا انتظار کرایا جا رہا ہے۔

سید رضی: اس کلام کو کلام خدا و رسول (ص) کے بعد کسی کلام کے ساتھ رکھ دیا جائے تو اس کا پلہ بھاری ہی رہے گا اور یہ سب سے آگے نکل جائے گا۔'' تحففوا لحقوا'' سے زیادہ مختصر اوربلیغ کلام تو کبھی دیکھا اور سنا ہی نہیں گیا ہے۔اسی کلمہ میں کس قدر گہرائی پائی جاتی ہے اور اس حکمت کا چشمہ کس قدرشفاف ہے۔ہم نے کتاب خصائص میں اس کی قدرو قیمت اور عظمت و شرافت پر مکمل تبصر ہ کیا ہے۔

(۲۲)

آپ کے خطبہ کا ایک حصہ

جب آپ کو خبر دی گئی کہ کچھ لوگوں نے آپ کی بیعت توڑدی ہے

(۱)اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ گناہ انسانی زندگی کے لئے ایک بوجھ کی حیثیت رکھتا ہے اور یہی بوجھ ہے جو انسان کوآگے نہیں بڑھنے دیتا ہے اور وہ اسی دنیا داری میں مبتلا رہ جاتا ہے ورنہ انسان کا بوجھ ہلکا ہو جائے تو تیز قدم بڑھا کر ان سابقین سے ملحق ہو سکتا ہے جو نیکیوں کی طرف سبقت کرتے ہوئے بلند ترین منزلوں تک پہنچ گئے ہیں۔

امیر المومنین کی دی ہوئی یہ مثال وہ ہے جس کا تجربہ ہر انسان کی زندگی میں برابر سامنے آتا رہتا ہے کہ قافلہ میں جس کا بوجھ زیادہ ہوتا ہے وہ پیچھے رہ جاتا ہے اور جس کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے وہ آگے بڑھ جاتا ہے۔صری مشکل یہ ہے کہ انسان کو گناہوں کے پوجھ ہونے کا احساس نہیں ہے۔شاعرنے کیا خوب کہا ہے:

چلنے نہ دیا بار گنہ نے پیدل

تابوت میں کاندھوں پر سوارآیا ہوں