(۲۲۹) ومن كلام لهعليهالسلام في وصف بيعته بالخلافة قال الشريف: وقد تقدم مثله بألفاظ مختلفة. وبَسَطْتُمْ يَدِي فَكَفَفْتُهَا ومَدَدْتُمُوهَا فَقَبَضْتُهَا - ثُمَّ تَدَاكَكْتُمْ عَلَيَّ تَدَاكَّ الإِبِلِ الْهِيمِ - عَلَى حِيَاضِهَا يَوْمَ وِرْدِهَا - حَتَّى انْقَطَعَتِ النَّعْلُ - وسَقَطَ الرِّدَاءُ ووُطِئَ الضَّعِيفُ - وبَلَغَ مِنْ سُرُورِ النَّاسِ بِبَيْعَتِهِمْ إِيَّايَ - أَنِ ابْتَهَجَ بِهَا الصَّغِيرُ وهَدَجَ إِلَيْهَا الْكَبِيرُ - وتَحَامَلَ نَحْوَهَا الْعَلِيلُ وحَسَرَتْ إِلَيْهَا الْكِعَابُ (۲۳۰) ومن خطبة لهعليهالسلام في مقاصد أخرى فَإِنَّ تَقْوَى اللَّه مِفْتَاحُ سَدَادٍ | (۲۲۹) آپ کا ارشاد گرامی (اپنی بعیت خلافت کے بارے میں ) تم نے بیعت کے لئے میری طرف ہاتھ پھیلانا چاہا تو میں نے روک لیا اور اسے کھینچنا چاہا تو میں نے سمیٹ لیا ۔لیکن اس کے بعد تم اس طرح مجھ پر ٹوٹ پڑے جس طرح پانی پینے کے دن پیا سے اونٹ تالاب پر گر پڑتے ہیں۔یہاں تک کہ میری جوتی کا تسمہ کٹ گیا اور عبا کاندھے سے گر گئی اور کمزور افراد کچل گئے۔تمہاری خوشی کا یہ عالم تھا کہ بچوں نے خوشیاں منائیں ۔بوڑھے لڑ کھڑاتے ہوئے قدموں سے آگے بڑھے ۔بیمار اٹھتے بیٹھتے۔پہنچ گئے اور میری بیعت کے لئے نوجوان لڑکیاں بھی پردہ(۱) سے باہر نکل آئیں۔ (۲۳۰) آپ کے خطبہ کا ایک حصہ یقینا تقویٰ الٰہی ہدایت کی کلید اور آخرت کا |
(۱) کس قدر فرق ہے اس بیعت میں جس کے لئے بوڑھے بچے عورتیں سب گھرسے نکل آئے اور کمال اشتیاق میں صاحب منصب کی بارگاہ کی طرف دوڑ پڑے اوراس بیعت میں جس کے لئے بنت رسول (ص) کے دروازہ میں آگ لگائی گئی ۔نفس رسول (ص) کو گلے میں رسی کا پھندہ ڈال کر گھرسے نکالا گیا اور صحابہ کرام کو زد و کوب کیا گیا۔
کیا ایسی بیعت کوبھی اسلامی بیعت کہاجا سکتا ہے اورایسے انداز کوبھی جواز خلافت کی دلیل بنایا جا سکتا ہے ؟ امیرالمومنین نے اپنی بیعت کاتذکرہ اسی لئے فرمایا ہے کہ صاحبان عقل و شعوراور ارباب عدل وانصاف بیعت کے معنی کا ادراک کرس کیں اور ظلم وجور۔جبر و استبدار کو بیعت کا نام نہدے سکیں اور نہ اسے جوازحکومت کی دلیل بناسکیں۔