ومَنْ جَمَعَ الْمَالَ عَلَى الْمَالِ فَأَكْثَرَ - ومَنْ بَنَى وشَيَّدَ وزَخْرَفَ ونَجَّدَ - وادَّخَرَ واعْتَقَدَ ونَظَرَ بِزَعْمِه لِلْوَلَدِ - إِشْخَاصُهُمْ جَمِيعاً إِلَى مَوْقِفِ الْعَرْضِ والْحِسَابِ - ومَوْضِعِ الثَّوَابِ والْعِقَابِ - إِذَا وَقَعَ الأَمْرُ بِفَصْلِ الْقَضَاءِ( وخَسِرَ هُنالِكَ الْمُبْطِلُونَ ) - شَهِدَ عَلَى ذَلِكَ الْعَقْلُ إِذَا خَرَجَ مِنْ أَسْرِ الْهَوَى - وسَلِمَ مِنْ عَلَائِقِ الدُّنْيَا.» (۴) ومن كتاب لهعليهالسلام إلى بعض أمراء جيشه فَإِنْ عَادُوا إِلَى ظِلِّ الطَّاعَةِ فَذَاكَ الَّذِي نُحِبُّ - وإِنْ تَوَافَتِ الأُمُورُ بِالْقَوْمِ إِلَى الشِّقَاقِ والْعِصْيَانِ - فَانْهَدْ بِمَنْ أَطَاعَكَ إِلَى مَنْ عَصَاكَ واسْتَغْنِ بِمَنِ انْقَادَ مَعَكَ عَمَّنْ تَقَاعَسَ عَنْكَ | اور زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے والوں ۔مستحکم عمارتیں بنا کر انہیں سجانے والوں۔ان میں بہترین فرش بچھانے والوں اور اولاد کے خیال سے ذخیرہ کرنے والوں اور جاگیریں بنانے والوں کو فنا کے گھاٹ اتاردینے والا ہے کہ ان سب کو قیامت کے موقف حساب اور منزل ثواب و عذاب میں حاضر کردے جب حق و باطل کا حتمی فیصلہ ہو گا اور اہل باطل یقیناخسارہ میں ہوں گے۔ ''اس سو دے پر اس عقل نے گواہی دی ہے جو خواہشات کی قید سے آزاد اور دنیا کی وابستگیوں سے محفوظ ہے '' (۴) مکتوب (بعض امر اء لشکر کے نام(۱) اگر دشمن اطاعت کے زیر سایہ آجائیں تو یہی ہمارا مدعا ہے اور اگر معاملات افتراف اورنا فرمانی کی منزل ہی کی طرف بڑھیں تو تم اپنے اطاعت گزاروں کو لے کر نافرمانوں کے مقابلہ میں اٹھ کھڑے ہو۔اور اپنے فرمانبرداروں کے وسیلہ سے انحراف کرن والوں سے بے نیاز ہوجائو |
(۱) جب اصحاب جمل بصرہ میں وارد ہوئے تو وہاں کے حضرت ک عامل عثمان بن حنیف نے آپ کے نام ایک خط لکھا جس میں بصرہ کی صورت حال کا ذکر کیا گیا تھا۔آپ نے اس کے جواب میںتحریر فرمایا کہ جنگ میں پہل کرنا ہمارا کام نہیں ہے لہٰذا تمہارا پہلا کام یہ ہے کہ ان پر اتمام حجت کرو پھراگر اطاعت امام پرآمادہ ہو جائیں تو بہترین بات ہے ورنہ تمہارے پاس فرمانبردار قسم کے افراد موجود ہیں۔انہیں ساتھ لے کرظالموں کا مقابلہ کرنا اور خبر دار جنگ کے معاملہ میں کسی پر کسی قسم کا جبر نہ کرنا کہ جنگ کا میدان قربانی کا میدان ہے اور اس میں وہی افراد ثابت قدم رہ سکتے ہیں جو جان و دل سے قربانی کے لئے تیار ہوں۔ورنہ اگر بادل نا خواستہ فوج اکٹھا بھی کرلی گئی تو یہ خطرہ بہر حال رہے گا کہ یہ عین وقت پر چھوڑ کر فرار کر سکتے ہیں جس کا تجربہ تاریخ اسلام میں بارہا ہو چکا ہیاورجس کا ثبوت خود قرآن حکیم میں موجود ہے ۔