(۴۴) ومن كتاب لهعليهالسلام إلى زياد ابن أبيه وقد بلغه أن معاوية كتب إليه يريد خديعته باستلحاقه وقَدْ عَرَفْتُ أَنَّ مُعَاوِيَةَ كَتَبَ إِلَيْكَ - يَسْتَزِلُّ لُبَّكَ ويَسْتَفِلُّ غَرْبَكَ - فَاحْذَرْه فَإِنَّمَا هُوَ الشَّيْطَانُ - يَأْتِي الْمَرْءَ مِنْ بَيْنِ يَدَيْه ومِنْ خَلْفِه - وعَنْ يَمِينِه وعَنْ شِمَالِه - لِيَقْتَحِمَ غَفْلَتَه ويَسْتَلِبَ غِرَّتَه وقَدْ كَانَ مِنْ أَبِي سُفْيَانَ فِي زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَلْتَةٌ - مِنْ حَدِيثِ النَّفْسِ - ونَزْغَةٌ مِنْ نَزَغَاتِ الشَّيْطَانِ - لَا يَثْبُتُ بِهَا نَسَبٌ ولَا يُسْتَحَقُّ بِهَا إِرْثٌ - والْمُتَعَلِّقُ بِهَا كَالْوَاغِلِ الْمُدَفَّعِ والنَّوْطِ الْمُذَبْذَبِ. فَلَمَّا قَرَأَ زِيَادٌ الْكِتَابَ قَالَ - شَهِدَ بِهَا ورَبِّ الْكَعْبَةِ - ولَمْ تَزَلْ فِي نَفْسِه حَتَّى ادَّعَاه مُعَاوِيَةُ. قال الرضي - قولهعليهالسلام الواغل - هو الذي يهجم على الشرب - ليشرب معهم وليس منهم - فلا يزال مدفعا محاجزا - والنوط المذبذب هو ما يناط برحل الراكب - من قعب أو قدح أو ما أشبه ذلك -. | (۴۴) آپ کامکتوب گرامی (زیاد بن ابیہ کے نام جب آپ کو خبر ملی کہ معاویہ اسے اپنے نسب میں شامل کرکے دھوکہ دینا چاہتا ہے ) مجھے معلوم ہوا ہے کہ معاویہ نے تمہیں خط لکھ کر تمہاری عقل کو پھسلانا چاہا ہے اور تمہاری دھار کو کند بنانے کا ارادہ کرلیا ہے۔لہٰذا خبردار ہوشیار رہنا۔یہ شیطان ہے جو انسان کے پاس آگے پیچھے ۔دہنے ' بائیں ہر طرف سے آتا ہے تاکہ اسے غافل پاکراس پر ٹوٹ پڑے اورغفلت کی حالت میں اس کی عقل کو سلب کرلے ۔ واقعہ یہ ہے کہ ابو سفیان نے عمربن الخطاب کے زمانہ میں ایک بے سمجھی بوجھی بات کہہ دی تھی جو شیطانی وسوسوں میں سے ایک وسوسہ کی حیثیت رکھتی تھی جس سے نہ کوئی نسب ثابت ہوتا ہے اور نہ کسی میراث کا استحقاق پیدا ہوتا ہے اوراس سے تمسک کرنے والا ایک بن بلایا شرابی ہے جسے دھکے دے کر نکال دیا جائے یا پیالہ ہے جو زین فرس میں لٹکا دیا جائے اور ادھر ادھرڈھلکتا رہے۔ سید رضی :اس خط کو پڑھنے کے بعد زیاد نے کہا کہ رب کعبہ کی قسم علی نے اس امر کی گواہی دے دی اور یہ بات اس کے دل سے لگی رہی یہاں تک کہمعاویہ نے اس کے بھائی ہونے کا اعادہ کردیا۔ واغل اس شخص کو کہاجاتا ہے جو بزم شراب میں بن بلائے داخل ہو جائے اوردھکے |