والنَّابِتَاتِ الْعِذْيَةَ أَقْوَى وَقُوداً وأَبْطَأُ خُمُوداً -. وأَنَا مِنْ رَسُولِ اللَّه كَالضَّوْءِ مِنَ الضَّوْءِ - والذِّرَاعِ مِنَ الْعَضُدِ - واللَّه لَوْ تَظَاهَرَتِ الْعَرَبُ عَلَى قِتَالِي لَمَا وَلَّيْتُ عَنْهَا - ولَوْ أَمْكَنَتِ الْفُرَصُ مِنْ رِقَابِهَا لَسَارَعْتُ إِلَيْهَا - وسَأَجْهَدُ فِي أَنْ أُطَهِّرَ الأَرْضَ مِنْ هَذَا الشَّخْصِ الْمَعْكُوسِ - والْجِسْمِ الْمَرْكُوسِ - حَتَّى تَخْرُجَ الْمَدَرَةُ مِنْ بَيْنِ حَبِّ الْحَصِيدِ ومِنْ هَذَا الْكِتَابِ وهُوَ آخِرُه: إِلَيْكِ عَنِّي يَا دُنْيَا فَحَبْلُكِ عَلَى غَارِبِكِ - قَدِ انْسَلَلْتُ مِنْ مَخَالِبِكِ - وأَفْلَتُّ مِنْ حَبَائِلِكِ - واجْتَنَبْتُ الذَّهَابَ فِي مَدَاحِضِكِ - أَيْنَ الْقُرُونُ الَّذِينَ غَرَرْتِهِمْ بِمَدَاعِبِكِ - أَيْنَ الأُمَمُ الَّذِينَ فَتَنْتِهِمْ بِزَخَارِفِكِ - فَهَا هُمْ رَهَائِنُ الْقُبُورِ ومَضَامِينُ اللُّحُودِ - واللَّه لَوْ كُنْتِ شَخْصاً مَرْئِيّاً وقَالَباً حِسِّيّاً - لأَقَمْتُ عَلَيْكِ حُدُودَ اللَّه | ہے ۔صحرائی جھاڑ کا ایندھن زیادہ بھڑکتا بھی ہے اور اسکے شعلے دیر میں بجھتے بھی ہیں۔میرا رشتہ رسول اکرم (ص) سے وہی ہے ۔جو نور کا رشتہ نورسے ہوتا ہے یا ہاتھ کا رشتہ بازئوں سے ہوتا ہے ۔ خداکی قسم اگر تمام عرب مجھ سے جنگ کرنے پر اتفاق کرلیں تو بھی میں میدان سے منہ نہیں پھرا سکتا اور اگرمجھے ذرا بھی موقع مل جائے تو میں ان کی گردنیں اڑا دوں گا اوراس بات کی کوشش کروں گا کہ زمین کو اس الٹی کھوپڑی اور بے ہنگم ڈیل ڈول والے سے پاک کردوں تاکہ کھلیان کے دانوں میں سے کنکر پتھر نکل جائیں۔ (اس خطبہ کا آخری حصہ ) اے دنیا مجھ سے دور(۱) ہو جا۔میں نے تیری باگ دوڑ تیرے ہی کاندھے پر ڈال دی ہے اور تیرے چنگل سے باہر آچکا ہوں اور تیرے جال سے نکل چکا ہوں اور تیری ے پھسلنے کے مقامات کی طرف جانے سے بھی پرہیز کرتا ہوں۔کہاں ہیں وہ لوگ جن کو تونے اپنی ہنسی مذاق کی باتوں سے لبھا لیا تھا اور کہاں ہیں وہ قومیں جن کی اپنی زینت و آرائش سے مبتلائے فتنہ کردیا تھا۔دیکھو اب وہ سب قبروں میں رہن ہوچکے ہیں اور لحد میں دبکے پڑے ہوئے ہیں ۔خدا کی قسم اگر تو کوئی دیکھنے والی شے اور محسوس ہونے والا ڈھانچہ ہوتی تو میں تیرے اوپر ضرور حد جاری |
(۱) لفظوں میں یہ بات بہت آسان ہے لیکن سجی سجائی دنیا کو تین مرتبہ طلاق دے کر اپنے سے جدا کردینا صرف نفس پیغمبر (ص) کا کارنامہ ہے اور امت کے بس کا کام نہیں ہے۔یہ کام وہی انجام دے سکتا ہے جو نفس کے چنگل سے آزاد ہو۔خواہشات کے پھندوں میں گرفتار نہ ہو اور ہر طرح کی زینت و آرائش کو اپنی نگاہوں سے گراچکا ہو۔