2%

فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوه إِلَى الله والرَّسُولِ ) - فَالرَّدُّ إِلَى اللَّه الأَخْذُ بِمُحْكَمِ كِتَابِه - والرَّدُّ إِلَى الرَّسُولِ الأَخْذُ بِسُنَّتِه الْجَامِعَةِ غَيْرِ الْمُفَرِّقَةِ.

ثُمَّ اخْتَرْ لِلْحُكْمِ بَيْنَ النَّاسِ أَفْضَلَ رَعِيَّتِكَ فِي نَفْسِكَ - مِمَّنْ لَا تَضِيقُ بِه الأُمُورُ ولَا تُمَحِّكُه الْخُصُومُ - ولَا يَتَمَادَى فِي الزَّلَّةِ - ولَا يَحْصَرُ مِنَ الْفَيْءِ إِلَى الْحَقِّ إِذَا عَرَفَه - ولَا تُشْرِفُ نَفْسُه عَلَى طَمَعٍ - ولَا يَكْتَفِي بِأَدْنَى فَهْمٍ دُونَ أَقْصَاه وأَوْقَفَهُمْ فِي الشُّبُهَاتِ وآخَذَهُمْ بِالْحُجَجِ - وأَقَلَّهُمْ تَبَرُّماً بِمُرَاجَعَةِ الْخَصْمِ - وأَصْبَرَهُمْ عَلَى تَكَشُّفِ الأُمُورِ - وأَصْرَمَهُمْ عِنْدَ اتِّضَاحِ الْحُكْمِ -

اطاعت کرو۔اس کے بعد کسی شے میں تمہارا اختلاف ہو جا ئے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پلٹا دو ''تو اللہ کی طرف پلٹانے کا مطلب اس کی کتاب محکم کی طرف پلٹا نا ہے۔

قضاوت:

اس کے بعد لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے لئے ان افراد کا انتخاب(۱) کرنا جو رعایا میںتمہارے نزدیک سب سے زیادہ بہتر ہوں۔اس اعتبار سے کہ نہ معاملات میںتنگی کا شکار ہوتے ہوں اور نہ جھگڑا کرنے والوں پر غصہ کرتے ہوں۔نہ غلطی پر اڑ جاتے ہوں اور حق کے واضح ہو جانے کے بعد اس کی طرف پلٹ کرآنے میں تکلف کرتے ہوں اورنہ ان کا نفس لالچ کی طرف جھکتا ہو اورنہ معاملات کی تحقیق میں ادنیٰ فہم پر اکتفا کرکے مکمل تحقیق نہ کرتے ہوں۔شبہات میں توقف کرنے والے ہوں اور دلیلوں کو سب سے زیادہ اختیار کرنے والے ہوں۔فریقین کی بحثوں سیاکتا نہ جاتے ہوں اور معاملات کی چھان بین میں پوری قوت برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوں اور حکم کے واضح ہو جانے کے بعد نہایت وضاحت سے

(۱)اس مقام پر قاضیوں کے حسب ذیل صفات کاتذکرہ کیا گیا ہے :

۱۔خود حاکم کی نگاہ میں قضاوت کرنے کے قابل ہو ۔۲۔تمام رعایا سے افضلیت کی بنیاد پر منتخب کیا گیا ہو ۔۳۔ مسائل میں الجھ نہ جاتا ہو بلکہ بلکہ صاحب نظر و استباط ہو ۔۴۔فریقین کے جھگڑوں پر غصہ نہ کرتا ہو ۔۵۔غلطی ہو جائے تو اس پر اکڑتا نہ ہو۔۶۔لالچی نہ ہو۔۷۔معاملات کی مکمل تحقیق کرتا ہو اورکاہلی کا شکار نہ ہو ۔۸۔ شبہات کے موقع پر جلد بازی سے کام نہ لیتا ہو بلکہ دیگر مقررہ قوانین کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہو ۔۹۔دلائل کوقبول کرنے والا ہو ۔۱۰۔فریقین کی طرف مراجعہ کرنے سے اکتاتا نہ ہو بلکہ پوری بحث سننے کی صلاحیت رکھتا ہو۔۱۱۔تحقیقات میںبے پناہ قوت صبروتحمل کا مالک ہو۔۱۲۔بات واضح ہو جائے تو قطعی فیصلہ کرنے میں تکلف نہ کرتا ہو ۔۱۳۔تعریف سے مغرور نہ ہوتا ہو۔۱۴۔ لوگوں کے ابھارنے سے کسی کی طرف جھکائو نہ پیدا کرتا ہو۔