6%

۷ - والصَّدَقَةُ دَوَاءٌ مُنْجِحٌ - وأَعْمَالُ الْعِبَادِ فِي عَاجِلِهِمْ نُصْبُ أَعْيُنِهِمْ فِي آجَالِهِمْ.

۸ - وقَالَعليه‌السلام اعْجَبُوا لِهَذَا الإِنْسَانِ يَنْظُرُ بِشَحْمٍ ويَتَكَلَّمُ بِلَحْمٍ - ويَسْمَعُ بِعَظْمٍ ويَتَنَفَّسُ مِنْ خَرْمٍ.

۹ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا أَقْبَلَتِ الدُّنْيَا عَلَى أَحَدٍ أَعَارَتْه مَحَاسِنَ غَيْرِه وإِذَا أَدْبَرَتْ عَنْه سَلَبَتْه مَحَاسِنَ نَفْسِه.

۱۰ - وقَالَعليه‌السلام خَالِطُوا النَّاسَ مُخَالَطَةً إِنْ مِتُّمْ مَعَهَا بَكَوْا عَلَيْكُمْ - وإِنْ عِشْتُمْ حَنُّوا إِلَيْكُمْ.

(۷)

صدقہ بہترین کارآمد دوا ہے اور لوگوں کے دنیا کے اعمال آخرت میں ان کی نگاہوں کے سامنے ہوں گے ۔

(۸)

انسان کی ساخت(۱) پر تعجب کروکہ چربی کے ذریعہ دیکھتا ہے اورگوشت سے بولتا ہے اور ہڈی سے سنتا ہے اور سوراخ سے سانس لیتا ہے۔

(۹)

جب(۲) دنیاکسی کی طرف متوجہ ہو جاتی ہے تو یہ دوسرے کے محاسن بھی اس کے حوالہ کردیتی ہے اور جب اس سے منہ پھراتی ہے تو اس کے محاسن بھی سلب کر لیتی ہے۔

(۱۰)

لوگوں کے ساتھ ایسا میل جول(۳) رکھوکہ مرجائو تو لوگ گریہ کریں اور زندہ رہو تو تمہارے مشتاق رہیں۔

(۱)حضرت کے بیان کا یہ حصہ علم الا عضاء سے تعلق رکھتا ہے۔جس کا مقصد طبی دوائوں کا بیان نہیں ہے بلکہ قدرت خدا کی طرف توجہ دلانا ہے کہ شائد انسان اس طرف شکر خالق کی طرف متوجہ ہو جائے ۔

(۲)یہ علم الا جتماع کا نکتہ ہے جہاں اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ زمانہ عیب دار کو عیب عیب بھی بنا دتا ہے اور بے عیب کو عیب دار بھی بنا دیتا ہے اوردونوں کا فرق دنیا کی توجہ ہے جس کا حصول بہر حال ضروری ہے ۔

(۳)یہ بھی بہترین اجتماعی نکتہ ہے جس کی طرف ہر انسان کو متوجہ رہنا چاہیے۔