2%

۱۱ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا قَدَرْتَ عَلَى عَدُوِّكَ - فَاجْعَلِ الْعَفْوَ عَنْه شُكْراً لِلْقُدْرَةِ عَلَيْه.

۱۲ - وقَالَعليه‌السلام أَعْجَزُ النَّاسِ مَنْ عَجَزَ عَنِ اكْتِسَابِ الإِخْوَانِ - وأَعْجَزُ مِنْه مَنْ ضَيَّعَ مَنْ ظَفِرَ بِه مِنْهُمْ.

۱۳ - وقَالَعليه‌السلام إِذَا وَصَلَتْ إِلَيْكُمْ أَطْرَافُ النِّعَمِ - فَلَا تُنَفِّرُوا أَقْصَاهَا بِقِلَّةِ الشُّكْرِ.

۱۴ - وقَالَعليه‌السلام مَنْ ضَيَّعَه الأَقْرَبُ أُتِيحَ لَه الأَبْعَدُ.

(۱۱)

جب دشمن پر قدرت(۱) حاصل ہو جائے تو معاف کردینے ہی کو اس قدرت کا شکریہ قرار دو۔

(۱۲)

عاجز(۲) ترین انسان وہ ہے جو دوست بنانے سے بھی عاجز ہو اور اس سے زیادہ عاجز وہ ہے جو رہے سہے دوستوں کوبھی برباد کردے ۔

(۱۳)

جب نعمتوں(۳) کا رخ تمہاری طرف ہو تو نا شکری کے ذریعہ انہیں اپنے تک پہنچنے سے بگھا نہ دو۔

(۱۴)

جسے قریب(۴) والے چھوڑ دیتے ہیں اسے دور والے مل جاتے ہیں۔

(۱)یہ اخلاقی تربیت ہے کہ انسان میں طاقت کا غرور نہیں ہونا چاہیے اور اسے ایک نعمت پروردگار سمجھ کر اس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے اور شکریہ بھی غلطی کرنے والوں کی معافی کی شکل میں ظاہر ہونا چاہیے۔

(۲)یہ بھی ایک اجتماعی نکتہ ہے کہ انسان میں دوست بنانے کی صلاحیت انتہائی ضرورت ہے اور جس میں یہ صلاحیت نہ ہو اسے واقعاً انسان نہں کہا جا سکتا ہے اور اس سے بد تر گیا گذرا انسان وہ ہے جو پائے ہوئے دوستوں کوبھی گنوادے۔

(۳)پروردار عالم نے یہ اخلاقی نظام بنادیا ہے کہ نعمتوں کی تکمیل شکریہ ہی کے ذریعہ ہو سکتی ہے لہٰذا جسے بھی اس کی تکمیل درکار ہے اسے شکریہ کا پابند ہونا چاہیے۔

(۴)انسان کو اعزا و اقربا کی بے رخی سے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔پروردگار جس طرح قرابتدار پیدا کر سکتا ہے اسی طرح دور والے مخلص بھی پیدا کر سکتا ہے اور اس طرح اعزاو اقربا میں یہ غرورنہیں ہونا چاہیے کہ ہم ساتھ چھوڑ دیں گے تو انسان لاوارث ہو جائے گا۔لاوارث کا وارث پروردگار اور اس نے حیات پیغمبر اسلام (ص) میںاس کا بہترین نمونہ پیشکردیا ہے ۔