2%

فَقَالَ: يَخْشَعُ لَه الْقَلْبُ وتَذِلُّ بِه النَّفْسُ - ويَقْتَدِي بِه الْمُؤْمِنُونَ إِنَّ الدُّنْيَا والآخِرَةَ عَدُوَّانِ مُتَفَاوِتَانِ - وسَبِيلَانِ مُخْتَلِفَانِ - فَمَنْ أَحَبَّ الدُّنْيَا وتَوَلَّاهَا أَبْغَضَ الآخِرَةَ وعَادَاهَا - وهُمَا بِمَنْزِلَةِ الْمَشْرِقِ والْمَغْرِبِ ومَاشٍ بَيْنَهُمَا - كُلَّمَا قَرُبَ مِنْ وَاحِدٍ بَعُدَ مِنَ الآخَرِ - وهُمَا بَعْدُ ضَرَّتَانِ.

۱۰۴ - وعَنْ نَوْفٍ الْبَكَالِيِّ قَالَ: رَأَيْتُ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَعليه‌السلام ذَاتَ لَيْلَةٍ - وقَدْ خَرَجَ مِنْ فِرَاشِه فَنَظَرَ فِي النُّجُومِ - فَقَالَ لِي يَا نَوْفُ أَرَاقِدٌ أَنْتَ أَمْ رَامِقٌ - فَقُلْتُ بَلْ رَامِقٌ قَالَ:

يَا نَوْفُ طُوبَى لِلزَّاهِدِينَ فِي الدُّنْيَا - الرَّاغِبِينَ فِي الآخِرَةِ - أُولَئِكَ قَوْمٌ اتَّخَذُوا الأَرْضَ بِسَاطاً - وتُرَابَهَا فِرَاشاً ومَاءَهَا طِيباً - والْقُرْآنَ شِعَاراً والدُّعَاءَ دِثَاراً - ثُمَّ قَرَضُوا الدُّنْيَا قَرْضاً عَلَى مِنْهَاجِ الْمَسِيحِ.

يَا نَوْفُ إِنَّ دَاوُدَعليه‌السلام قَامَ فِي مِثْلِ هَذِه السَّاعَةِ مِنَ اللَّيْلِ - فَقَالَ إِنَّهَا لَسَاعَةٌ لَا يَدْعُو فِيهَا عَبْدٌ إِلَّا اسْتُجِيبَ لَه -

تو آپ نے فرمایا کہ اس سے دل میں خشوع اورنفس میں احساس کمتری پیدا ہوتا ہے اور مومنین اس کی اقتدا بھی کرسکتے ہیں۔یاد رکھودنیا اورآخرت آپس میں دوناساز گار دشمن ہیں اور دو مختلف راستے ۔لہٰذا جو دنیا سے محبت اورتعلق خاطر رکھتا ہے وہ آخرت کادشمن ہو جاتا ہے اور جو راہر و ایک سے قریب تر ہوتا ہے وہ دوسرے سے دور ترہوجاتا ہے۔پھریہ دونوں آپس میں ایک دوسرے کی سوت جیسی ہیں ۔

(۱۰۴)

نوف بکالی کہتے ہیں کہ میں نے ایک شب امیرالمومنین کو دیکھا کہ آپ نے بستر سے اٹھ کرستاروں پر نگاہ کی اور فرمایا کہ نوف! سو رہے ہو یا بیدار ہو؟ میں نے عرض کی کہ حضورجاگ رہا ہوں۔فرمایا کہ نوف ! خوشا بحال ان کے جو دنیا سے کنارہ کش ہوں توآخرت کی طرف رغبت رکھتے ہوں۔یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے زمین کو بستر بنایا ہے اورخاک کو فرش ' پانی کو شربت قراردیاہے اور قرآن و دعا کو اپنے ظاہرو باطن کامحافظ اس کے بعد دنیا سے یوں الگ(۱) ہوگئے جس طرح حضرت مسیح ۔

نوف! دیکھودائود رات کے وقت ایسے ہی موقع پر قیام کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ یہ وہ ساعت ہے جس میں جو بندہ بھی دعاکرتا ہے پروردگار اس کی دعا

(۱)اس مقام پر لفظ قرض اشارہ ہے کہ نہایت مختصر حصہ حاصل کیا ہے جس طرح دانت سے روٹی کاٹ لی جاتی ہے اور ساری روٹی کو منہمیں نہیں بھر لیا جاتا ہے کہ اس کیفیت کوخضم کہتے ہیں۔قرض نہیں کہتے ہیں۔