2%

۱۰۷ - وقَالَعليه‌السلام رُبَّ عَالِمٍ قَدْ قَتَلَه جَهْلُه وعِلْمُه مَعَه لَا يَنْفَعُه.

۱۰۸ - وقَالَعليه‌السلام لَقَدْ عُلِّقَ بِنِيَاطِ هَذَا الإِنْسَانِ بَضْعَةٌ - هِيَ أَعْجَبُ مَا فِيه وذَلِكَ الْقَلْبُ - وذَلِكَ أَنَّ لَه مَوَادَّ مِنَ الْحِكْمَةِ وأَضْدَاداً مِنْ خِلَافِهَا - فَإِنْ سَنَحَ لَه الرَّجَاءُ أَذَلَّه الطَّمَعُ - وإِنْ هَاجَ بِه الطَّمَعُ أَهْلَكَه الْحِرْصُ - وإِنْ مَلَكَه الْيَأْسُ قَتَلَه الأَسَفُ - وإِنْ عَرَضَ لَه الْغَضَبُ اشْتَدَّ بِه الْغَيْظُ - وإِنْ أَسْعَدَه الرِّضَى نَسِيَ التَّحَفُّظَ - وإِنْ غَالَه الْخَوْفُ شَغَلَه الْحَذَرُ - وإِنِ اتَّسَعَ لَه الأَمْرُ اسْتَلَبَتْه الْغِرَّةُ - وإِنْ أَفَادَ مَالًا أَطْغَاه الْغِنَى - وإِنْ أَصَابَتْه مُصِيبَةٌ فَضَحَه الْجَزَعُ - وإِنْ عَضَّتْه الْفَاقَةُ شَغَلَه الْبَلَاءُ - وإِنْ جَهَدَه الْجُوعُ قَعَدَ بِه الضَّعْفُ - وإِنْ أَفْرَطَ بِه الشِّبَعُ كَظَّتْه الْبِطْنَةُ -

(۱۰۷)

بہت سے عالم(۱) ہیں جنہیں دین سے نا واقفیت مارڈالاہے اور پھر ان کے علم نے بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچایا ہے۔

(۱۰۸)

اس انسان کے وجود میں سب سے زیادہ تعجب خیز وہ گوشت کا ٹکڑا ہے جو ایک رگ سے آویزاں کردیا گیا ہے اور جس کا نام قلب ہے کہ اس میں حکمت(۲) کے سر چشمے بھی ہیں اوراس کی ضدیں بھی ہیں کہ جب اسے امید کی جھلک نظر آتی ہے تو طمع ذلیل بنادتی ہے اور جب طمع میں ہیجان پیدا ہوتا ہے تو حرص برباد کردیتی ہے اورجب مایوسی کا قبضہ ہو جاتا ہے تو حسرت مار ڈالتی ہے اور جب غضب طاری ہوتا ہے ۔توغم و غصہ شدت اختیار کر لیتا ہے اور جب خوشحال ہو جاتا ہے تو حفظ ماتقدم کو بھول جاتا ہے اور جب خوف طاری ہوتا ہے تواحتیاط دوسری چیزوں سے غافل کردیتی ہے۔اور جب حالات وسعت پیدا ہوتی ہے تو غفلت قبضہ کرلیتی ہے -اورجب مال حاصل کر لیتا ہے تو بے نیازی سر کش بنا دیتی ہے اورجب کوئی مصیبت نازل ہو جاتی ہے توفریادرسواکر دیتی ہے اور جب فاقہ کاٹ کھاتا ہے تو بلاء گرفتار کر لیتی ہے اور جب بھوک تھکا دیتی ہے توکمزوری بٹھا دیتی ہےاورجب ضرورت سے زیادہ پیٹ بھر جاتا ہے

(۱)یہ دانشوران ملت ہیں جن کے پاس ڈگریوں کاغرورتو ہے لیکن دین کی بصیرت نہیں ہے۔ظاہر ہے کہ ایسے افراد کا علم تباہ کرسکتا ہے آباد نہیں کر سکتا ہے۔

(۲)انسانی قلب کو دو طرح کی صلاحیتوں سے نوازا گیا ہے۔اس میںایک پہلو عقل و منطق کا ہے اور دوسرا جذبات و عواطف کا۔اس ارشاد گرامی میں دوسرے پہلو کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور اس کے متضاد خصوصیات کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔