2%

وبِالتَّوَاضُعِ تَتِمُّ النِّعْمَةُ - وبِاحْتِمَالِ الْمُؤَنِ يَجِبُ السُّؤْدُدُ - وبِالسِّيرَةِ الْعَادِلَةِ يُقْهَرُ الْمُنَاوِئُ - وبِالْحِلْمِ عَنِ السَّفِيه تَكْثُرُ الأَنْصَارُ عَلَيْه.

۲۲۵ - وقَالَ علالسلام الْعَجَبُ لِغَفْلَةِ الْحُسَّادِ عَنْ سَلَامَةِ الأَجْسَادِ.

۲۲۶ - وقَالَعليه‌السلام الطَّامِعُ فِي وِثَاقِ الذُّلِّ.

۲۲۷ - وسُئِلَ عَنِ الإِيمَانِ - فَقَالَ الإِيمَانُ مَعْرِفَةٌ بِالْقَلْبِ - وإِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وعَمَلٌ بِالأَرْكَانِ.

منزلت بلند ہوتی ہے اور تواضع سے نعمت مکمل ہوتی ہے۔دوسروں کا بوجھ اٹھانے سے سرداری حاصل ہوتی ہے اور انصاف پسند کردار سے دشمن پر غلبہ حاصل کیا جاتا ہے۔احمق کے مقابلہ میں بردباری کے مظاہرہ سے انصار و اعوان(۱) میں اضافہ ہوتا ہے۔

(۲۲۵)

حیرت کی بات ہے کہ حسد کرنے والے جسموں کی سلامتی پرحسد کیوں نہیں کرتے ہیں ( دولت مند کی دولت سے حسد ہوتا ہے اور مزدورکی صحت سے حسد نہیں ہوتا ہے حالانکہ یہ اس سے بڑی نعمت ہے۔

(۲۲۶)

لالچی(۲) ہمیشہ ذلت کی قید میں گرفتار رہتا ہے۔

(۲۲۷)

آپ سے ایمان کے بارے میں دریافت کیا گیا تو فرمایا کہایمان دل کا عقیدہ ' زبان کا اقرار اوراعضاء و جوارح کے عمل(۳) کا نام ہے۔

(۱)اس نصیحت میں بھی زندگی کے سات مسائل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اوریہ بتایا گیا ہے کہ انسان ایک کامیاب زندگی کس طرح گزار سکتا ہے اور اسے اس دنیا میں باعزت زندگی کے لئے کن اصول و قوانین کو اختیار کرنا چاہیے۔

(۲)لالچ میں دو طرح کی ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ایک طرف انسان نفسیاتی ذلت کاشکار رہتا ہے کہ اپنے کو حقیر فقیر تصورکرتا ہے اوراپنی کسی بھی دولت کا احساس نہیں کرتا ہے اور دوسری طرف دوسرے ارفاد کے سامنے حقارت و ذلت کا اظہار کرتا رہتا ہے کہ شائد اسی طرح کسی کو اس کے حال پر رحم آجائے اوروہ اس کے مدعا کے حصول کی راہ ہموار کردے

(۳)علی والوں کو اس جملہ کو بغور دیکھنا چاہیے کہ کل ایمان نے ایمان کو اپنی زندگی کے سانچہ میں ڈھال دیا ہے کہ جس طرح آپ کی زندگی میں اقرار ' تصدیق اور عمل کے تینوں زخ پائے جاتے تھے ویسے ہی آپ ہر صاحب ایمان کو اس کردار کا حامل دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کے بغیر کسی کو صاحب ایمان تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیںہیں اور کھلی ہوئی بات ہے کہ بے عمل اگر صاحب ایمان نہیں ہو سکتا ہے تو کل ایمان کا شیعہ اور ان کا مخلص کیسے ہو سکتا ہے ۔