۲۶۰ - وقَالَعليهالسلام كَمْ مِنْ مُسْتَدْرَجٍ بِالإِحْسَانِ إِلَيْه - ومَغْرُورٍ بِالسَّتْرِ عَلَيْه - ومَفْتُونٍ بِحُسْنِ الْقَوْلِ فِيه - ومَا ابْتَلَى اللَّه سُبْحَانَه أَحَداً بِمِثْلِ الإِمْلَاءِ لَه. قال الرضي - وقد مضى هذا الكلام فيما تقدم - إلا أن فيه هاهنا زيادة جيدة مفيدة | (۲۶۰) کتنے ہی لوگ ہیں جنہیں احسان کے ذریعہ عذاب کی لپیٹ میں لے لیا جاتا ہے اور وہ پردہ پوشی(۱) کی بنا پر دھوکہ میں پڑے ہوئے ہیں اورلوگوں کے اچھے الفاظ سن کرف ریب خوردہ ہوگئے ہیں۔اللہ نے کسی بھی شخص کا امتحان مہلت سے زیادہ بہتر کسی ذریعہ سے نہیں لیا ہے ۔ سید رضی : یہ بات پہلے گذر چکی تھی لیکن اس میں قدرے مفید اضافہ تھا اس لئے دوبارہ نقل کردی گئی ہے۔ |
(۱)خدا جانتا ہے کہ مالک کائنات اگرجبر کے ذریعہ انسان کو راہ راست پرلانا چاہتا تواسے طاقت استعمال کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور کسی کے سر پر جلادوں کے مسلط کرنے کا کوئی کام نہیں تھا۔وہ صرف عیوب کی پردہ پوشی کا سلسلہ ختم کردیتا اور ایک نظام بنادیتا کہ جو انسان بھی خلوت اور تنہائی میں کوئی غلط کام انجام دے گا یا اپنے دل و دماغ میں کسی غلط تصور کوجگہ دے گا۔اس کے اس عیب کا فوری اعلان کردیا جائے گا۔اور اسے اس کی پیشانی پر لکھ دیا جائے گا۔تو سارے انسان ایک لمحہ میں شریف ہو جاتے ہیں اور نہ کسی میں غداری اورمکاری کی ہمت ہوتی اورنہ کوئی منافقت اور ریاکاری سے کام لینے کی جرأت کرتا۔ہر انسان شریف ہوتا اور معاشرہ پاکیزہ کرداروں کا معاشرہ ہوتا لیکن وہ کسی طرح کے جبرو اکراہ کو استعمال نہیں کرنا چاہتا ہے اور انسان سے اسی کی شرافت کے راستہ سے کام لینا چاہتا ہے۔ورنہ جبرو اکراہ کو استعمال کرنا ہوتا تو شیطان سے بھی سجدہ کرایا جاتا تھا اور اسے اس قدر مہلت دینے کی کوئی گنجائش نہ تھی۔