۶ - وفي حديثهعليهالسلام إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا كَانَ لَه الدَّيْنُ الظَّنُونُ - يَجِبُ عَلَيْه أَنْ يُزَكِّيَه لِمَا مَضَى إِذَا قَبَضَه. فالظنون الذي لا يعلم صاحبه - أيقبضه من الذي هو عليه أم لا - فكأنه الذي يظن به - فمرة يرجوه ومرة لا يرجوه - وهذا من أفصح الكلام - وكذلك كل أمر تطلبه - ولا تدري على أي شيء أنت منه فهو ظنون - وعلى ذلك قول الأعشى: ما يجعل الجد الظنون الذي جنب صوب اللجب الماطر مثل الفراتي إذا ما طما يقذف بالبوصي والماهر والجد البئر العادية في الصحراء - والظنون التي لا يعلم هل فيها ماء أم لا. ۷ - وفي حديثهعليهالسلام أنَّه شَيَّعَ جَيْشاً بِغَزْيَةٍ فَقَالَ - اعْذِبُوا عَنِ النِّسَاءِ مَا اسْتَطَعْتُمْ. | (۶) جب کسی شخص کو دین ظنون مل جائے تو جتنے سال گزرے گئے ہوں ان کی زکوٰة واجب ہے۔ ظنون اس قرض کا نام ہے جس کے قرضدار کو یہ نہ معلوم ہو کہ وہ وصول بھی ہو سکے گا یا نہیں اور اس طرح ' طرح طرح کے خیالات پیدا ہو تے رہتے ہیں اور اسی بنیاد پر ہر ایسے امر کو ظنون کہا جاتا ہے 'جیسا کہ اعشیٰ نے کہا ہے۔ ''وہ جدظنون جو گرج کربرسنے والے ابر کی بارش سے بھی محروم ہو۔اسے دریائے فرات کے مانند نہیں قرار دیا جا سکتا ے جب کہ وہ ٹھاٹھیں مار رہا ہو اور کشتی اور تیراک دونوں کوڈھکیل کر باہر پھینک رہا ہو۔'' جد۔صحراکے پرانے کنویں کوکہاجاتا ہے اور ظنون اس کوکہا جاتا ہے جس کے بارے میں یہ نہ معلوم ہو کہ اس میں پانی ہے یا نہیں ۔ (۷) آپ نے ایک لشکر کومیدان جنگ میں بھیجتے ہوئے فرمایا : جہاں تک ممکن ہو عورتوں سے عاذبرہو یعنی ان کی یاد سے دور رہو |