ومعناه اصدفوا عن ذكر النساء وشغل القلب بهن - وامتنعوا من المقاربة لهن - لأن ذلك يفت في عضد الحمية - ويقدح في معاقد العزيمة ويكسر عن العدو - ويلفت عن الإبعاد في الغزو - فكل من امتنع من شيء فقد عذب عنه - والعاذب والعذوب الممتنع من الأكل والشرب. ۸ - وفي حديثهعليهالسلام كَالْيَاسِرِ الْفَالِجِ يَنْتَظِرُ أَوَّلَ فَوْزَةٍ مِنْ قِدَاحِه. الياسرون - هم الذين يتضاربون بالقداح على الجزور - والفالج القاهر والغالب - يقال فلج عليهم وفلجهم - وقال الراجز. لما رأيت فالجا قد فلجا ۹ - وفي حديثهعليهالسلام كُنَّا إِذَا احْمَرَّ الْبَأْسُ اتَّقَيْنَا بِرَسُولِ اللَّه -صلىاللهعليهوآلهوسلم فَلَمْ يَكُنْ أَحَدٌ مِنَّا أَقْرَبَ إِلَى الْعَدُوِّ مِنْه. | ۔ان میں دل مت لگائو اور ان سے مقاربت مت کرو کہ یہ طریقہ کار بازوئے حمیت میں کمزوری اور عزم کی پختگی میں سستی پیدا کردیتا ہے اور دشمن کے مقابلہ میں کمزور بنا دیتا ہے اور جنگ میں کوشش و سعی سے رو گردان کر دیتا ہے اورجوان تمام چیزوں سے الگ رہتا ہے اسے عاذب کہا جاتا ہے۔عاذب یا عذوب کھانے پینے سے دور رہنے والے کوبھی کہا جاتا ہے۔ (۸) وہ اس یاسر فالج کے مانند ہے جو جوئے کے تیروں کا پانسہ پھینک کر پہلے ہی مرحلہ پر کامیابی کی امید لگا لیتا ہے '' یا سرون '' وہ لوگ ہیں جونحرکی ہوئی اونٹنی پر جوئے کے تیروں کا پانسہ پھینکتے ہیں اورفالج ان میں کامیاب ہو جانے والے کو کہا جاتا ہے '' فلج علیھم '' یا '' فلجھم'' اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب کوئی غالب آجاتا ہے 'جیسا کہ رجز خواں شاعر نے کہا ہے : '' جب میں نے کسی فالج کو دیکھا کہ وہ کامیاب ہوگیا'' (۹) جب احمرار باس ہوتا تھا تو ہم لوگ رسول اکرم(ص) کی(۱) پناہ میں رہا کرتے تھے اور کوئی شخص بھی آپ سے زیادہ دشمن سے قریب نہیں ہوتا تھا '' |
(۱)پیغمبر اسلام (ص) کاکمال احترام ہے کہ حضرت علی جسے اشجع عرب نے آپ کے بارے میں یہ بیان دیا ہے اورآپ کی عظمت و ہیبت وشجاعت کااعلان کیا ہے ۔دوسراکوئی ہوتا تو اس کے برعکس بیان کرتا کہ میدان جنگ میں سرکار ہماری پناہ میں رہا کرتے تھے اورہم نہ ہوتے توآپ کاخاتمہ ہو جاتا لیکن امیرالمومنین جیسا صاحب کرداراس انداز کا بیان نہیں دے سکتا ہے اور نہ یہ سوچ سکتا ہے ۔آپ کی نظرمیں انسان کتنا ہی بلند کردار اورصاحب طاقت و ہمت کیوں نہ ہو جائے سرکار دو عالم (ص) کا امتی ہی شمار ہوگا اور امتی کا مرتبہ پیغمبر (ص) سے بلند تر نہیں ہو سکتا ہے۔