2%

فَقَالَعليه‌السلام إِذَا كَانَ الْغَدُ - فَأْتِنِي حَتَّى أُخْبِرَكَ عَلَى أَسْمَاعِ النَّاسِ - فَإِنْ نَسِيتَ مَقَالَتِي حَفِظَهَا عَلَيْكَ غَيْرُكَ - فَإِنَّ الْكَلَامَ كَالشَّارِدَةِ يَنْقُفُهَا هَذَا ويُخْطِئُهَا هَذَا.

وقد ذكرنا ما أجابه به - فيما تقدم من هذا الباب وهو قوله - الإيمان على أربع شعب.

۲۶۷ - وقَالَعليه‌السلام يَا ابْنَ آدَمَ لَا تَحْمِلْ هَمَّ يَوْمِكَ الَّذِي لَمْ يَأْتِكَ - عَلَى يَوْمِكَ الَّذِي قَدْ أَتَاكَ - فَإِنَّه إِنْ يَكُ مِنْ عُمُرِكَ يَأْتِ اللَّه فِيه بِرِزْقِكَ.

۲۶۸ - وقَالَعليه‌السلام أَحْبِبْ حَبِيبَكَ هَوْناً مَا - عَسَى أَنْ يَكُونَ بَغِيضَكَ يَوْماً مَا - وأَبْغِضْ بَغِيضَكَ هَوْناً مَا - عَسَى أَنْ يَكُونَ حَبِيبَكَ يَوْماً مَا.

توفرمایا کہ کل آنا تومیں مجمع عام میں بیان کروں گا تاکہ تم بھول جائو تو دوسرے لوگ محفوظ رکھ سکیں۔ اس لئے کہ کلام بھڑکے ہوئے شکار کے مانند ہوتا ہے کہ ایک پکڑ لیتا ہے اورایک کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے ( مفصل جواب اس سے پہلے ایمان کے شعبوں کے ذیل میں نقل کیا جا چکا ہے )

(۲۶۷)

فرزند آدم ! اس دن کاغم جو ابھی نہیں آیا ہے اس دن پر مٹ ڈالو جوآچکا ہے۔کہ اگر وہ تمہاری عمرمیں شامل ہوگا تو اس کا رزق بھی اس کے ساتھ ہی آئے گا۔

(۲۶۸)

اپنے دوست سے ایک محدود حد تک دوستی کرو کہیں ایسا(۱) نہ کہ ایک دن دشمن ہو جائے اوردشمن سے بھی ایک حد تک دشمنی کرو شائد ایک دن دوست بن جائے ( تو شرمندگی نہ ہو)

(۱)یہ ایک انتہائی عظیم معاشرتی نکتہ ہے جس کا اندازہ ہراس انسان کو ہے جس نے معاشرہ میں آنکھ کھول کر زندگی گذاری ہے اوراندھوں جیسی زندگی نہیں گذاری ہے۔اس دنیاکے سردو گرم کا تقاضا یہی ہے کہ یہاں افراد سے ملنا بھی پڑتا ہے اور کبھی الگ بھی ہونا پڑتا ہے۔لہٰذا تقاضائے عقل مندی یہی ہے کہ زندگی میں ایسا اعتدال رکھے کہاگر الگ ہونا پڑے تو سارے اسرار دوسرے کے قبضہ میں نہ ہوں کہ اس کا غلام بن کر رہ جائے اوراگرملنا پڑے تو ایسے حالات نہ ہوں کہ شرمندگی کے علاوہ اورکچھ ہاتھ نہ آئے ۔