إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَى النَّبِيِّصلىاللهعليهوآلهوسلم - والأَمْوَالُ أَرْبَعَةٌ أَمْوَالُ الْمُسْلِمِينَ - فَقَسَّمَهَا بَيْنَ الْوَرَثَةِ فِي الْفَرَائِضِ - والْفَيْءُ فَقَسَّمَه عَلَى مُسْتَحِقِّيه - والْخُمُسُ فَوَضَعَه اللَّه حَيْثُ وَضَعَه - والصَّدَقَاتُ فَجَعَلَهَا اللَّه حَيْثُ جَعَلَهَا - وكَانَ حَلْيُ الْكَعْبَةِ فِيهَا يَوْمَئِذٍ - فَتَرَكَه اللَّه عَلَى حَالِه - ولَمْ يَتْرُكْه نِسْيَاناً ولَمْ يَخْفَ عَلَيْه مَكَاناً - فَأَقِرَّه حَيْثُ أَقَرَّه اللَّه ورَسُولُه - فَقَالَ لَه عُمَرُ لَوْلَاكَ لَافْتَضَحْنَا - وتَرَكَ الْحَلْيَ بِحَالِه. ۲۷۱ - رُوِيَ أَنَّهعليهالسلام رُفِعَ إِلَيْه رَجُلَانِ سَرَقَا مِنْ مَالِ اللَّه - أَحَدُهُمَا عَبْدٌ مِنْ مَالِ اللَّه - والآخَرُ مِنْ عُرُوضِ النَّاسِ. فَقَالَعليهالسلام أَمَّا هَذَا فَهُوَ مِنْ مَالِ اللَّه ولَا حَدَّ عَلَيْه - مَالُ اللَّه أَكَلَ بَعْضُه بَعْضاً - | کہ یہ قرآن پیغمبر اسلام (ص) پر نازل ہواہے اور آپ کے دورمیں اموال کی چار قسمیں تھیں۔ایک مسلمان کاذاتی مال تھا جسے حسب فرائض و رثاء میں تقسیم کردیا کرتے تھے ۔ایک بیت المال کامال تھاجسے مستحقین میں تقسیم کرتے تھے ۔ایک خمس تھا جسے اس کے حقداروں کے حوالہ کردیتے تھے ۔اور کچھ صدقات تھے جنہیں انہیں کے محل پر صرف کیاکرتے تھے ۔کعبہ کے زیورات اس وقت بھی موجود تھے اورپروردگار نے انہیں اسی حالت میں چھوڑ رکھا تھا۔نہ رسول اکرم (ص) انہیں بھولے تھے اور نہان کا وجود آپ سے پوشیدہ تھا۔لہٰذا انہیں اسی حالت پر رہنے دیں جس حالت پرخدا(۱) اور رسول(ص) نے رکھا ہے۔ یہ سننا تھا کہ عمر نے کہا آج اگر آپ نہ ہوتے تو میں رسوا ہوگیا ہوتا اور یہ کہہ کر زیورات کو ان کی جگہ چھوڑ دیا۔ (۲۷۱) کہا جاتا ہے کہ آپ کے سامنے دو آدمیوں کوپیش کیا گیا جنہوں نے بیت المال سے مال چرایا تھا ایک ان میں سے غلام اور بیت المال کی ملکیت تھا اور دوسرا لوگوں میں سے کسی کی ملکیت تھا۔آپ نے فرمایا کہ جو بیت المال کی ملکیت ہے اس پر کوئی حد نہیں ہے کہ مال خداکے ایک حصہ نے دوسرے حصہ کو کھالیا ہے۔ لیکن |
(۱)یہ صورت حال بظاہر خانہ کعبہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام مقدس مقامات کایہی حال ہے کہ ان کے زینت و آرائش کے اسباب اگرضروری ہیں توان کا تحفظ بھی ضروری ہے۔لیکن اگر ان کی کوئی افادیت نہیں ہے توان کے بارے میں ذمہ دار ان شریعت سے رجوع کرکے صحیح مصرف میں لگا دینا چاہیے۔بقول شخصے بجلی کے دورمیں موم بتی اورخوشبو کے دورمیں اگر بتی کے تحفظ کی کوئی ضرورت نہیں ہے یہی پیسہ اسی مقدس مقام کے دیگر ضرورت پر صرف کیا جا سکتا ہے۔