2%

إِلَّا وقَدْ خَبَأَ لَه الدَّهْرُ يَوْمَ سَوْءٍ.

۲۸۷ - وسُئِلَ عَنِ الْقَدَرِ - فَقَالَ طَرِيقٌ مُظْلِمٌ فَلَا تَسْلُكُوه - وبَحْرٌ عَمِيقٌ فَلَا تَلِجُوه - وسِرُّ اللَّه فَلَا تَتَكَلَّفُوه.

۲۸۸ - وقَالَعليه‌السلام : إِذَا أَرْذَلَ اللَّه عَبْداً حَظَرَ عَلَيْه الْعِلْمَ.

۲۸۹ - وقَالَعليه‌السلام : كَانَ لِي فِيمَا مَضَى أَخٌ فِي اللَّه - وكَانَ يُعْظِمُه فِي عَيْنِي صِغَرُ الدُّنْيَا فِي عَيْنِه - وكَانَ خَارِجاً مِنْ سُلْطَانِ بَطْنِه - فَلَا يَشْتَهِي مَا لَا يَجِدُ ولَا يُكْثِرُ إِذَا وَجَدَ -

زمانہ اس کے واسطے ایک برا دن چھپا کر رکھتا ہے۔

(۲۸۷)

آپ سے قضا و قدرکے بارے میں دریافت کیا گیا تو فرمایا کہ یہ ایک تاریک راستہ ہے اس پرمت چلو اورایک گہرا سمندر ہے اس میں داخل ہونے کی کوشش نہ کرو اورایک راز الٰہی ہے لہٰذا اسے(۱) معلوم کرنے کی زحمت نہ کرو۔

(۲۸۸)

جب پروردگار کسی بندہ کو ذلیل کرنا چاہتا ہے تو اسے علم و دانش سے محروم کردیتا ہے۔

(۲۸۹)

گذشتہ زمانہ میں میرا ایک بھائی تھا۔جس کی عظمت میری نگاہوں میں اس لئے تھی کہ دنیا اس کی نگاہوں(۲) میں حقیر تھی اور اس پر پیٹ کی حکومت نہیں تھی۔جو چیز نہیں ملتی تھی اس کی خواہش نہیں کرتا تھا اور جو مل جاتی تھی اسے زیادہ استعمال نہیں کرتاتھا۔اکثر

(۱)اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اسلام کسی بھی موضوع کے بارے میں جہالت کا طرفدار ہے اور نہ جاننے ہی کو افضلیت عطا کرتا ہے۔بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ اکثر لوگ ان حقائق کے متحمل نہیں ہوتے ہیں۔لہٰذا انسان کو انہیں چیزوں کا علم حاصل کرنا چاہیے جواس کے لئے قابل تحمل و برداشت ہو۔ اس کے بعد اگر حدود تحمل سے باہر ہو تو پڑھ لکھ کر بہک جانے سے نا واقف رہنا ہی بہترہے۔

(۲)بعض حضرات کاخیال ہے کہ یہ واقعاً کسی شخصیت کی طرف اشارہ ہے جس کے حالات و کیفیات کا اندازہ نہیں ہو سکا ہے اوربعض حضرات کاخیال ہے کہ یہ ایک آئیڈیل اور مثالیہ کی نشاندہی ہے کہ صاحب ایمان کو اسی کردار کا حامل ہونا چاہیے اور اگر ایسا نہیں ہے تو اسی راستہ پر چلنے کی کوشش کرنا چاہیے تاکہ اس کاشمار واقعاً صاحبان ایمان و کردار میں ہو جائے ۔