۴۰۰ - وقَالَعليهالسلام الْعَيْنُ حَقٌّ والرُّقَى حَقٌّ والسِّحْرُ حَقٌّ - والْفَأْلُ حَقٌّ والطِّيَرَةُ لَيْسَتْ بِحَقٍّ - والْعَدْوَى لَيْسَتْ بِحَقٍّ - والطِّيبُ نُشْرَةٌ والْعَسَلُ نُشْرَةٌ - والرُّكُوبُ نُشْرَةٌ والنَّظَرُ إِلَى الْخُضْرَةِ نُشْرَةٌ. ۴۰۱ - وقَالَعليهالسلام : مُقَارَبَةُ النَّاسِ فِي أَخْلَاقِهِمْ أَمْنٌ مِنْ غَوَائِلِهِمْ ۴۰۲ - وقَالَعليهالسلام لِبَعْضِ مُخَاطِبِيه - وقَدْ تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ يُسْتَصْغَرُ مِثْلُه عَنْ قَوْلِ مِثْلِهَا: لَقَدْ طِرْتَ شَكِيراً وهَدَرْتَ سَقْباً. | (۴۰۰) چشم بد ۔فسوں کاری۔جادوگری اورفال نیک یہ سب واقعیت رکھتے ہیں لیکن بدشگونی(۱) کی کوئی حقیت نہیں ہے اور بیماری کی چھوت چھات بھی بے بنیاد امر ہے۔ خوشبو سواری' شہد اور سبزہ دیکھنے سے فرحت حاصل ہوتی ہے۔ (۴۰۱) لوگوں کے ساتھ اخلاقیات میں قربت رکھنا ان کے شر سے بچانے(۲) کا بہترین ذریعہ ہے۔ (۴۰۲) ایک شخص(۳) نے آپ کے سامنے اپنی اوقات سے اونچی بات کہہ دی۔تو فرمایا: تم تو پر نکلنے سے پہلے ہی اڑنے لگے اورجوانی آنے سے پہلے ہی بلبلانے لگے۔ |
(۱)کاش کوئی شخص ہمارے معاشرہ کو اس حقیقت سے آگاہ کر دیتا اور اسے باور کرادیتا کہ بدشگونی ایک وہمی امر ہے اوراس کی کوئی حقیقت و واقعیت نہیں ہے اور مرد مومن کو صرف حقائق اور واقعیات پراعتماد کرناچاہیے۔مگر افسوس کہ معاشرہ کا ساراکاروبار صرف اوہام وخیالات پرچل رہا ہے اور شگون نیک کی طرف کوئی شخص متوجہ نہیں ہے اور بد شگونی کا اعتبار ہر شخص کر لیتا ہے اوراس پر بیشمار سماجی اثرات بھی مرتبہو جاتے ہیں اور معاشرتی فساد کا ایک سللہ شروع ہو جاتا ہے۔
(۲)چونکہ ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ لوگ اس کے ساتھبرا برتائو نہ کریں اور وہ ہر ایک کے شر سے محفوظ رہے لہٰذا اس کابہترین طریقہ یہ ہے کہ لوگوں سے تعلقات قائم کرے اوران سے رسم و راہ بڑھائے تاکہوہ شر پھیلانے کا ارادہ ہی نہ کریں۔کہ معاشر ہ میں زیادہ حصہ شراختلاف اوردوری سے پیدا ہوتا ہے ورنہ قربت کے بعد کسی نہ کسی مقدار میں تکلف ضرور پیدا ہوجاتا ہے۔
(۳)بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے پاس علم وفضل اور کمال و ہنر کچھ نہیں ہوتا ہے لیکن اونچی محفلوں میں بولنے کا شوق ضرور رکھتے ہیں جس طرح کہ بعض خطباء کمال جہالت کے باوجود ہر بڑی سے بڑی مجلس سے خطاب کرنے کے امیدوار رہتے ہیں اور ان کاخیال یہ ہوتا ہے کہ اس طرح اپنی شخصیت کارعب قائم کرلیں گے اور یہ احساس بھی نہیں ہوتا ہے کہ رہی سہی عزت بھی چلی جائے گی اور مجمع عام میں رسوا ہو جائیں گے۔
امیر المومنین نے اسے ہی افراد کو تنبیہ کی ہے جو قبل از وقت بالغ ہو جاتے ہیں اور بلوغ فکری سے پہلے ہی بلبلانے لگتے ہیں۔