- فَسَعِدَ بِمَا شَقِيتَ بِه - أَوْ رَجُلٍ عَمِلَ فِيه بِمَعْصِيَةِ اللَّه - فَشَقِيتَ بِمَا جَمَعْتَ لَه - ولَيْسَ أَحَدُ هَذَيْنِ أَهْلًا أَنْ تُؤْثِرَه عَلَى نَفْسِكَ - ولَا أَنْ تَحْمِلَ لَه عَلَى ظَهْرِكَ - فَارْجُ لِمَنْ مَضَى رَحْمَةَ اللَّه - ولِمَنْ بَقِيَ رِزْقَ اللَّه. ۴۱۷ - وقَالَعليهالسلام لِقَائِلٍ قَالَ بِحَضْرَتِه أَسْتَغْفِرُ اللَّه - ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ أَتَدْرِي مَا الِاسْتِغْفَارُ - الِاسْتِغْفَارُ دَرَجَةُ الْعِلِّيِّينَ - وهُوَ اسْمٌ وَاقِعٌ عَلَى سِتَّةِ مَعَانٍ - أَوَّلُهَا النَّدَمُ عَلَى مَا مَضَى - والثَّانِي الْعَزْمُ عَلَى تَرْكِ الْعَوْدِ إِلَيْه أَبَداً - والثَّالِثُ أَنْ تُؤَدِّيَ إِلَى الْمَخْلُوقِينَ حُقُوقَهُمْ - حَتَّى تَلْقَى اللَّه أَمْلَسَ لَيْسَ عَلَيْكَ تَبِعَةٌ - والرَّابِعُ أَنْ تَعْمِدَ إِلَى كُلِّ فَرِيضَةٍ عَلَيْكَ - ضَيَّعْتَهَا فَتُؤَدِّيَ حَقَّهَا - والْخَامِسُ أَنْ تَعْمِدَ إِلَى اللَّحْمِ الَّذِي نَبَتَ عَلَى السُّحْتِ - فَتُذِيبَه بِالأَحْزَانِ | ہوگی اور نیک بختی اس کے لئے ہوگی۔یا وہ شخص ہوگا جو معصیت میں صرف کرے گا تو اس کے لئے جمع کرکے تم بد بختی کا شکار ہوگے اوران میںسے کوئی اس بات کا اہل نہیں ہے کہ اسے اپنے نفس پر مقدم کرسکو اور اس کے لئے اپنی پشت کو گرانبار بناسکو لہٰذا جوگزرگئے ان کے لئے رحمت خدا کی امید کرو اورجوباقی رہ گئے ہیں ان کے لئے رزق خداکی امید کرو ۔ (۴۱۷) ایک شخص نے آپ کے سامنے استغفار کیا ''استغفر اللہ '' تو آپ نے فرمایا کہ تیری ماں تیرے ماتم میں بیٹھے ۔یہ استغفار بلند ترین لوگوں کا مقام ہے اوراس کے مفہوم میں چھ چیزیں شامل ہیں:(۱) ماضی پر شرمندگی(۲) آئندہ کے لئے نہ کرنے کا عزم محکم(۳) مخلوقات کے حقوق کا ادا کردینا کہ اس کے بعد یوں پاکدامن ہو جائے کہ کوئی مواخذہ نہ رہ جائے(۴) جس فریضہ کو ضائع کردیا ہے اسے پورے طور پر ادا کردینا۔(۵) جو گوشت مال حرام سے اگا ہے اسے رنج و غم سے پگھلا(۱) دینا |
(۱)اس سلسلہ میں سرکاردوعالم (ص) کا یہ ارشاد گرامی نقل کیاگیا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ '' جس شخص نے ایک لقمہ حرام کھالیا اس کی نماز چالیس دن تک قبول نہ ہوگی اور اس کی دعا بھی چالیس دن تک قبول نہ ہوگی اور اس حرام سے جوگوشت اگے گا اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا اوریاد رکھو کہ ایک لقمہ سے بھی کسی نہ کسی مقدارمیں گوشت ضرور روئیدہ ہوتا ہے۔
کھلی ہوئی بات ہے کہ جب ایک لقمہ حرام کا یہاثر ہے تو جو لوگ صبح و شام لقمہ حرام ہی پر گذارا کرتے رہتے ہیں۔ان کی عبادتوں اوردعائوں کا انجام کیا ہوگا ۔ایسے لوگوں کا فرض ہے کہ دعائوں کے قبول نہ ہونے کاشکوہ کرنے کے بجائے دعائوں ک قابل قبول ہونے کا انتظام کریں تاکہ پروردگار ان کی دعائوں کو قبول کرسکے اور ان کی نمازوں کا اجرو ثواب دے سکے ورنہ صحیح نماز عذاب سے تو محفوظ بنا سکتی ہے تواث کا حقدار نہیں بنا سکتی ہے جب تک قابل قبول نہ ہوجائے۔اور صحیح اور مقبول کا بنیادی فرق یہ ہے کہ صحیح ہونے کے لئے عمل کے شرائط اور واجبات کودیکھا جاتا ہے کہ ان میں کوتاہی نہیں ہوئی ہے تو عمل صحیح ہو جائے گا اور دوبارہ انجام دینے کی ضرورت نہ ہوگی ۔لیکن قبول ہونے کے لئے اس کے علاوہ عمل کرنے والے کے تقویٰ اور اخلاص کو دیکھاجاتا ہے کہ پوردگار متقین کے علاوہکسی کے عمل کو قابل قبول نہیں قرار دیتا ہے اور اسنے صاف لفظوں میں اعلان کردیا ہے کہ وہ صرف متقین کے اعمال کو قبول کرتا ہے اور انہیں کے اعمال کو اجرو ثواب کاحقدار اور بلندی درجات کا وسیلہ و ذریعہ قراردیتا ہے۔