6%

يَتَّخِذُهَا الظَّالِمُونَ فِيكُمْ سُنَّةً.

قال الشريف قولهعليه‌السلام ولا بقي منكم آبر يروى على ثلاثة أوجه:

أحدها أن يكون كما ذكرناه آبر بالراء - من قولهم للذي يأبر النخل أي يصلحه -. ويروى آثر وهو الذي يأثر الحديث ويرويه - أي يحكيه وهو أصح الوجوه عندي - كأنهعليه‌السلام قال لا بقي منكم مخبر -. ويروى آبز بالزاي المعجمة وهو الواثب - والهالك أيضا يقال له آبز

(۵۹)

وقالعليه‌السلام

لما عزم على حرب الخوارج - وقيل له:

إن القوم عبروا جسر النهروان!

مَصَارِعُهُمْ دُونَ النُّطْفَةِ - واللَّه لَا يُفْلِتُ مِنْهُمْ عَشَرَةٌ ولَا يَهْلِكُ مِنْكُمْ عَشَرَةٌ.

جسے ظالم تمہارے بارے میں اپنی سنت بنالیں گے یعنی ہر چیز کو اپنے لئے مخصوص کرلینا۔

سید رضی : حضرت کا ارشاد 'لا بقی منکم آبر'' تین طریقوں سے نقل کیا گیا ہے:

آبر: وہ شخص جو درخت خرمہ کو کانٹ چھانٹ کر اس کی اصلاح کرتا ہے۔

آثر: روایت کرنے والا۔یعنی تمہاری خبر دینے والا بھی کوئی نہ رہ جائے گا۔اوریہی زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔

آبر: کودنے والا یا ہلاک ہونے والا کہ مزید ہلاکت کے لئے بھی کوئی نہ رہ جائے گا۔

(۵۹)

آپ نے اس وقت ارشاد فرمایا

جب آپ نے خوارج سے جنگ کا عزم کرلیا اور نہر وان کے پل کو پار کرلیا

یادرکھو(۱) !دشمنوں کی قتل گاہ دریا کے اس طرف ہے۔خدا کی قسم نہ ان میں کے دس باقی بچیں گے اور نہ تمہارے دس ہلاک ہو سکیں گے ۔

(۱)جب امیر المومنین کو یہ خبردی گئی کہ خوارج نے سارے ملک میں فساد پھیلانا شروع کردیا ہے ۔جناب عبداللہ بن خباب بن الارت کو ان کے گھر کی عورتوں سمیت قتل کردیا ہے اور لوگوں میں مسلسل دہشت پھیلا رہے ہیں تو آپ نے ایک شخص کو سمجھانے کے لئے بھیجا۔ان ظالموں نے اسے بھی قتل کردیا۔اس کے بعد جب حضرت عبداللہ بن خباب کے قاتلوں کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تو صاف کہہ دیا کہ ہم سب قاتل ہیں۔اس کے بعد حضرت نے بنفس نفیس توبہ کی دعوت دی لیکن ان لوگوں نے اسے بھی ٹھکرادیا۔آخر ایک دن وہ آگیا جب لوگ ایک لاش کو لے کرآئے اور سوال کیا کہ سرکار اب فرمائیں اب کیا حکم ہے؟ تو آپ نے نعرہ تکبیر بلندکرکے جہاد کا حکم دے دیا اور پروردگار کے دئیے ہوئے علم غیب کی بناپر انجام کار سے بھی با خبر کردیا جو بقول ابن الحدید صد فیصد صحیح ثابت ہوا اور خوارج کے صرف نو افراد بچے اور حضرت کے ساتھیوں میں صرف آٹھ افراد شہید ہوئے۔