خدا کی راہ میں علی علیہ سلام کسی کا لحاظ نہیں کرتے تھے بلکہ اگر کسی پر مہربانی کرتے اور کسی کا لحاظ کرتے تو وہ خدا کے لیے ہوتا۔ یہ صورت حال یقیناً لوگوں کو اپنا دشمن بنانے والی ہے اورلالچ اور آرزو سے پردلوں کو رنجیدہ کرنے اور تکلیف پہنچانے والی ہے۔
پیغمبر کے اصحاب میں کوئی شخص علی علیہ سلام کی طرح فداکار دوست نہیں رکھتا جس طرح ان کی مانند کوئی شخص ایسے گستاخ اور خطرناک دشمن نہیں رکھتا۔ وہ ایسے شخص تھے کہ جس کی موت کے بعد اس کا جنازہ بھی دشمنوں کے حملے کا نشانہ بنا۔ وہ حود اس معاملے سے آگاہ تھے اور اس کی پیش بینی کیا کرتے تھے اسی لیے انہوں نے وصیت کی کہ ان کی قبر مخفی رکھی جائے اور ان کے فرزندوں کے علاوہ کوئی اسےنہ جانتا ہو، یہاں تک کہ تقریباً ایک صدی گزرگئی اور اموی سلطنت ختم ہوگئی، خوارج بھی ختم یا سخت کمزور ہوگئے، کینے اور کینہ توزیاں کم ہوگئیں اور امام جعفر صادق کے ہاتھوں ان کا مزار مقدّس کو ظاہر کیا گیا۔
ناکثین و قاسطین و مارقین
علی علیہ السّلام نے اپنی خلافت کے دوران تین گروہوں کواپنے سے دور پھینکا اور ان کے ساتھ برسرپیکار رہے۔ اصحاب جمل جن کو آپ نے ناکثین کانام دیا۔ اصحاب صفیّن جن کو قاسطین کہا اوراصحاب نہروان یعنی خوراج جن کو آپ نے مارقین کے نام سے پکارا:(۱)
''فلما نھضت بالامر نکثت طائفۃ و مرقت احری وقسط آخرون،، (نہج البلاغہ، خطبہ شقشقیہ)
''پس جب میں نے امر خلافت کا فیصلہ کیا تو ایک گروہ نے بیعت توڑ ڈالی، ایک گروہ دین سے نکل گیا ایک گروہ نے سرکشی اور بغاوت کر ڈالی۔،،
ناکثین ذہنی طور پر زبردست لوگ تھے جو لالچی اور طبقاتی نظام کے طرفدار
____________________
۱) اور آپ سے پہلے پیغمبر نے ان کو انہیں ناموں سے پکارا کہ ان سے فرمایا ستقاتل بعدی الناکثین والقاسطین و المارقین،، یعنی میرے بعد (اے علی علیہ سلام) ناکثین، قاسطین اور مارقین کے ساتھ جنگ کروگے۔ اس روایت کو ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ ج ۱، ص ۲۰۱۔ میں نقل کرتا ہے او رکہتا ہے کہ یہ روایت حضرت ختمی مرتبت کی نبوت کے دلائل میں سے ایک ہے کیونکہ یہ مستقبل اور غیب کے بارے میں ایسی صریح خبر ہے جس میں کوئی تاویل یا اجمال کی گنجائش نہیں ہے۔