12%

ہم اپنی بحث کو آخری گروہ یعنی خوارج کی طرف منعطف کریں گے۔ یہ اگرچہ اب ختم ہوچکے ہیں لیکن یہ ایک سبق آموز اور عبرت انگیز تاریخ رکھتے ہیں ان کے خیالات تمام مسلمانوں میں پھیل چکے ہیں۔ جس کے نتیجے میں چودہ سو سال کی طویل تاریخ میں اگرچہ وہ لوگ اور حتیّٰ کہ ان کے نام بھی ختم ہوچکے ہیں لیکن ان کی روح ''مقدس نما،، لوگوں کی شکل میں ہمیشہ باقی ہے اور اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ سمجھی جاتی ہے۔

خوارج کا ظہور

خوارج یعنی شورشی، یہ لفظ ''خروج،،(۱) سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں سرکشی اور بغاوت۔ ان کاظہور ''حکمیت،، کے معاملے سے ہوا ہے۔ جنگ صفین میں آخری روز جبکہ

____________________

۱) کلمہئ ''خروج،، اگر متعدّی بہ ''علیٰ،، ہو تو اس کے دو معنی نکلتے ہیں جو ایک دوسرے کے قریب ہیں۔ ایک جنگ اور لڑائی سے نکل آنا اور دوسرے سرکشی، نافرمانی اور شورش۔خرج فلان علیٰ فلان: برز لقتاله، و خرجت الرعیة علی الملک : تمردت (المنجد) لفظ ''خوارج،، جس کے لےے فارسی میں ''شورشیاں،، کا لفظ بولا جاتا ہے، وہ ''خروج،، سے دوسرے معنی میں لیا گیا ہے۔ اس گروہ کو خوارج اس لیے کہا گیا ہے کہ انہوں نے علی علیہ سلام کے حکم سے سرتابی کی اور ان کے خلاف شورش برپا کی اور چونکہ اپنی سرکشی کی بنیاد ایک عقیدہ اور مسلک پر رکھی لہذا اسی طرح نامزد ہوگئے اور یہ نام ان کے لیے مختص ہوگیا۔ اسی لیے وہ تمام لوگ جنہوں نے قیام کیا اور حاکم وقت سے بغاوت کی خارجی نہیں کہلائے۔ اگر یہ کوئی مذہب عقیدہ نہ رکھتے تو بعد کے بغاوت کرنے والوں کی طرح ہوتے لیکن یہ کچھ عقائد رکھتے تھے جن کو بعد میں مستقل حیثیت مل گئی۔ اگرچہ یہ کسی وقت بھی کوئی حکومت قائم کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے لیکن اپنے لیے ایک فقہ اور ادب تخلیق کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ (صخی الاسلام ج ۳، ص ۲۷۰،۲۴۷ طبع ششم کی طرف رجوع کیاجائے)