رُسوم یا روح
ایک مذہبی بحث کی حیثیت سے خارجیت یا خوارج کے اوپر بحث کرنا، کسی مورد کے بغیر بحث اوربے نتیجہ ہے کیونکہ آج دنیا میں ایسا کوئی مذہب وجود نہیں رکھتا لیکن اس کے ساتھ ہی خوارج اور ان کے کام کی نوعیت کے بارے میں بحث ہمارے اور ہمارے معاشرے کے لیے سبق آموز ہے کیونکہ ہر چند خوارج کا مذہب ختم ہوچکا ہے لیکن اس کی روح ابھی زندہ ہے۔ خارجیت کی روح ہم میں سے بہت سے لوگوں کے پیکر میں حلول کئے ہوئے ہے۔ لازم ہے کہ مقدمے کے طور پر کچھ کہوں:
یہ ممکن ہے کہ کچھ مذاہب رسوم کے اعتبار سے مرچکے ہوں لیکن اپنی روح کے اعتباد سے زندہ ہوںجیسا کہ یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے برعکس ہو کہ کوئی مسلک رسوم کے اعتبار سے زندہ ہو لیکن روح کے اعتبار سے کلی طورپر مرچکا ہو لہذا ممکن ہے کہ کوئی فرد یا کچھ افراد رسوم کے لحاظ سے ایک مذہب کے تابع اور پیرو شمار کئے جاتے ہوں اور روح کے اعتبار سے اس مذہب کے پیرو نہ ہوں اور اس کے برعکس ممکن ہے کہ بعض روح کے اعتبار سے کسی مذہب کے پیرو ہوں حالانکہ اس مذہب کے رسوم کو انہوں نے قبول نہ کیا ہو۔
مثلاً جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، کہ رسول اکرم کی رحلت کے بعد ابتداء ہی مسلمان دو فرقوں میں بٹ گئے:۔ سُنّی اور شیعہ۔ سُنّی ایک رسم اور عقیدے کے چوکھٹے کے اندر ہیں اور شیعہ دوسرے رسم اور عقیدے کی چار دیواری کے اندر۔