جذب و دفع کے سلسلے میں لوگو ں کے درمیان فرق
جاذبہ و دافعہ کے اعتبار سے لوگ یکساں نہیں ہیں۔ بلکہ مختلف طبقات میں تقسیم کئے جا سکتے ہیں:
۱۔ وہ لوگ جو نہ جاذبہ رکھتے ہیں نہ دافعہ۔ نہ کوئی ان سے دوستی رکھتا ہے اور نہ ہی دشمنی ۔ نہ عشق و تعلق اور محبت پیدا کرتے ہیں نہ عداوت و حسد اور کینہ و نفرت۔ وہ بے پرواہ ہو کر لوگوں کے درمیان چلتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک پتھر ہے جو لوگوں کے درمیان چلتا پھرتا ہے۔
یہ ایک مہمل اور بے اثر وجود ہے۔ وہ انسان جو فضیلت یا رذالت کے اعتبار سے کوئی مثبت نقطہ نہ رکھتا ہو (مثبت سے مراد یہاں صرف فضیلت کا پہلو نہیں ہے بلکہ شقاوت بھی مرادہے) وہ ایک ایسا جانور ہے جو غذا کھاتا، سوتا اور انسانوں کے درمیان چلتا پھرتا ہے۔ یہ اس گوسفند کی طرح ہے جو نہ کسی کا دوست ہے اور نہ کسی کا دشمن اور اگر لوگ اس کی خبر لیتے ہیں اور اسے پانی اور چارہ دیتے ہیں تو صرف اس لیے کہ کسی وقت اس کے گوشت سے فائدہ اٹھائیں۔ وہ نہ دوستانہ جذبات پیدا کر سکتا ہے نہ مخالفانہ۔ یہ ایک گروہ ہے جو بے قیمت اور بیہودہ و محروم لوگوں کا ہے۔ کیونکہ انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ دوست رکھتا ہو اور لوگ اس کو دوست رکھتے ہوں۔ بلکہ ہم یہ بھی کہ سکتے ہیں کہ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ دشمن رکھتا ہو اور لوگ اسے دشمن رکھتے ہوں۔
۲۔وہ لوگ جو جاذبہ تو رکھتے ہیں لیکن دافعہ نہیں رکھتے بلکہ ہر ایک کے لیے گرم جوشی رکھتے ہیں اور تمام طبقات کے تمام لوگوں کو اپنا مرید بناتے ہیں۔ زندگی میں سب لوگ انہیں دوست رکھتے ہیں اور کوئی ان کا انکار نہیں کرتا۔ جب مرتے ہیں تب بھی مسلمان ان کو آب زمزم سے غسل دیتے ہیں اور ہندو ان کے جسم کو جلاتے ہیں۔
چنان بانیک و بد خو کن کہ بعد از مردنت عرفی
مسلمانت بہ زمزم شوید و ہندو بسوزاند
عرفی! نیک و بد سب کے ساتھ اس طرح زندگی گزار کہ تیرے مرنے کے بعد مسلمان تجھے زمزم سے غسل دیں اور ہندو جلا دیں.