12%

علی علیہ سلام نے اس کے جواب میں کیا کیا؟ جب تک اسکے قرآن پڑھنے کی آواز بلدن رہی آپ خاموش رہے یہاں تک کہ اس نے آیت ختم کرلی جونہی اس نے آیت ختم کی علی علیہ سلام نے اپنی نماز جاری رکھی۔ ابن الکواء نے دوبارہ آیت کو دُھرایا اور علی علیہ سلام نے فوراً خاموشی اختیار کرلی۔ علی علیہ سلام سکوت اس لیے اختیار کرتے تھے چونکہ قرآن کا حکم یہ ہے کہ:''و اذا قریئ القراٰن فاستمعوا له و انصتوا،، (۱)

''جب قرآن پڑھا جائے تو غور سے سنو اور خاموش رہو۔،،

اور اسی لیے ہے کہ جب امام قرات میں مشغول ہو مامومین کو چاہےے کہ خاموش رہیں اور سنیں۔

جب وہ کئی بار اس آیت کو دُھرا چکا اور چاہا کہ نماز کی حالت کو برہم کرے اس کے بعدعلی علیہ سلام نے یہ آیت پڑھی:

( فاصبر ان وعد الله حق ولا یستخلفنک الذیب لا یؤمنون )

''صبر کرو خدا کا وعدہ سچا ہے اور پورا ہوگا یہ ایمان و یقین سے بے بہرہ لوگ تمہیں نہیں ڈرا سکتے اور نہ تمہارے عزم کو کمزور کرسکتے ہیں،،

پھر آپ نے کوئی پرواہ نہ کی اور نماز جاری رکھی۔

خوارج کی بغاوت اور سرکشی

ابتداء میں خارجی پرامن تھے اور صرف تنقید ار کھُلی بحث اپر اکتفا کرتے تھے، علی علیہ سلام کا رویہ بھی ان کے ساتھ ویسا ہی تھا جیسا کہ ہم نے پہلے کہا یعینی کسی لحاظ سے ان کی راہ نہ روکتے یہاں تک کہ بیت المال سے ان کے وظیفے بھی بند نہ کئے لیکن جوں جوں وہ علی علیہ سلام کے توبہ کرنے کی طرف سے مایوس ہوتے گئے، انہوں نے اپنا رویہ بدل ڈالا اور انقلاب برپا کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ وہ اپنے ایک ہم مسلک کے گھر میں جمع ہوگئے اور ان میں سے ایک نے پرجوش اور اشتعال انگیز تقریر کی اور اپنے دوستوں کو امر بہ معروف اور نہی از منُکر کے نام پر بغاوت اور سرکشی کی دعوت دی ان سے خطاب کرتے ہوئے اس نے کہا:

____________________

(ابن ابی الحدید ج ۲، ص ۳۱۱)