12%

اور جس طرف ہم نے اشارہ کیا ہے، ایک دوسرا فرق قوت کشش (جذب) کی مقدار کا ہے۔ جس طرح کہ نیوٹن کے ''نظریہ کشش '' کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کسی شئے کی جسامت اور کمتر فاصلے کی نسبت سے کشش اور جذب کی مقدار زیادہ ہوجاتی ہے۔ انسانوں میں جذب کرنے والی شخصیت کے اعتبار سے جذب اور دباؤ (دفع) کی مقدار میں فرق پیدا ہوتا ہے۔

علی علیہ السّلام۔ دوہری قوت والی شخصیت

علی(ع) ان لوگوں میں سے ہیں جو جاذبہ بھی رکھتے ہیں اور دافعہ بھی اور ان کا جاذبہ و دافعہ سخت قوی ہیں۔ شاید تمام صدیوں اور زمانوں میں علی (ع) کے جاذبہ و دافعہ کی طرح کا قوی جاذبہ و دافعہ ہم پیدا نہ کر سکیں۔ وہ ایسے عجیب تاریخی، فداکار اور درگزر کرنے والے دوست رکھتے ہیں جو ان کے عشق میںآتش خرمن کے شعلوں کی طرح بھڑکتے اور دمکتے ہیں۔ وہ اس کی راہ میں جان دینے کواپنی آرزو اور اپنا سرمایہئ افتخار سجھتے ہیں اور جنہوں نے ان کی محبت میں ہر شئے کو بھلا دیا ہے۔ علی(ع) کی موت کو سالہا سال بلکہ صدیاں گزر چکی ہیں لیکن یہ جاذبہ و افعہ اسی طرح اپنا جلوہ دکھا رہا ہے اور دیکھنے والوں کی آنکھوں کو خیرہ کرتا ہے۔

ان کی زندگی میں ایسے شریف و نجیب، خدا پرست، فداکار، بے لوث عناصر اور عفو و درگزر کرنے والے مہربان، عادل اور خدمت خلق کرنے والے لوگ ان کی ذات کے محور پر اس طرح گھومتے تھے کہ ان میں سے ہرایک، ایک سبق آموز تاریخ رکھتا ہے اور ان کی موت کے بعد معاویہ و دیگر اموی خلفاء کے دور میں بے شمار لوگ ان کی دوستی کی پاداش میں سخت ترین شکنجوں میں کسے گئے، لیکن علی (ع) کی دوستی اور عشق میں ان کے قدم نہ لڑکھڑائے اور آخری سانس تک وہ ثابت قدم رہے۔

دنیاوی شخصیتیں جب مرتی ہیں تو ان کے ساتھ ساری چیزیں مرجاتی ہیں اور ان کے جسم کے ساتھ زمین کے اندر پنہاں ہوجاتی ہیں۔ جبکہ حق والی شخصیتیں خود مر جاتی ہیںلیکن ان کا مکتب اور ان کے ساتھ لوگوں کا عشق صدیاںگزرنے کے باوجود تابندہ تر ہوجاتا ہے۔