جاذبہئ علی علیہ السلام کی قوت
طاقت ور جاذبے
خاتم پیمبران (ص) کی پہلی جلد کے مقدمہ میں تعلیمات کے بارے میں ہم یوں پڑھتے ہیں:
انسانیت کے درمیان ظاہرہونے والی تعلیمات ساری یکساں نہ تھیں اور یہ کہ ان کی تاثیر کا دائرہ بھی ایک جیسا نہیں تھا۔
بعض تعلیمات اور فکری نظاموں کا صرف ایک ہی پہلو ہے اور انکی پیشرفت ایک ہی جانب ہے۔ اپنے زمانے میں ایک وسیع سطح کو اپنی لپیت میں لیا، لاکھوں کی تعداد میں پیروکاروں کی جماعت پیدا کی، لیکن ان کا زمانہ ختم ہونے کے بعد ان کی بساط ہستی لپیٹ دی گئی اور وہ طاقِ نسیان میں ڈال دی گئیں۔
بعض تعلیمات اور فکری نظاموںکے دو پہلوہیں، ان کی روشنی دو سمتوںمیں آگے بڑھی جس نے ایک وسیع سطح کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ اسی طرح بعد کے زمانوں میںبھی پیش رفت کی یعنی صرف ''مکان '' کا ہی پہلو نہ تھا بلکہ ''زمان '' پربھی وہ حاوی تھیں۔
اور بعض (تعلیمات اور فکری نظاموں) نے مختلف پہلوؤں سے پیش رفت کی ہے۔ وسیع سطح پر انسانی گروہوں کو لپیٹ میں لے کر اپنے زیر اثر کیا ہے۔ چنانچہ ہم دنیا کے ہر براعظم میں ان کا اثر و نفوذ دیکھتے ہیں اور '' زمان،، کا پہلو بھی۔ یعنی ایک عصر یا ایک زمانے سے مخصوص نہیں بلکہ صدیوں تک پورے اقتدار کے ساتھ ان کی حکمرانی رہی ہے۔ ان کی جڑیں انسانی روح کی گہرائیوں میں ہیں۔
انسانی ضمیر کے رازوں پر ان کا قبضہ ہے۔ قلب کی گہرائیوں پران کی حکمرانی ہے اور احساس کی نبض پران کا ہاتھ ہے۔ یہ سہ پہلو تعلیمات سلسلہئ انبیاء کے ساتھ مخصوص ہیں۔
ایسا کون سا فکری یا فلسفی مکتب پیدا کیا جا سکتا ہے جس نے دنیا کے بڑے ادیان کی مانند، کروڑوں انسانوں پر تیس، بیس، یا کم از کم چودہ صدیاں حکومت کی ہو اور انسانی ضمیر کو جھنجھورا ہو؟؟!