تہذیبِ نفس کا بہترین وسیلہ
عشق و محبت کے باب میں گزشتہ مباحث صرف مقدمہ تھیں اور اب ہم آہستہ آہستہ نتیجے تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ ہماری اہم ترین بحث جو در حقیقت ہماری اصل بحث ہے، یہ ہے کہ اولیاء کے ساتھ عشق و محبت اور نیکو کاروں کے ساتھ دوستی رکھنا بذاتِ خود ہدف ہے یا تہذیب نفس، اصلاحِ اخلاق اور انسانی فضائل اور رفعتوں کے حصول کا ایک ذریعہ ہے۔
عشق حیوانی میں، عاشق کی تمام تر نظر اور توجہ معشوق کی صورت، اعضاء کے تناسب اور اس کی جلد کے رنگ اور رعنائی پر ہوتی ہے۔ یہ ایک کشش ہے جو انسان کو اپنی طرف کھینچتی اور مجذوب بناتی ہے۔ لیکن اس کشش سے جی بھر جانے کے بعد یہ آگ پھر نہیں بھڑکتی، بلکہ سرد پڑ جاتی اور (بالآخر) بجھ جاتی ہے۔ لیکن عشق انسانی، جیساکہ ہم نے پہلے کہا ہے، حیات اور زندگی ہے، اطاعت کرانے اور پیروکار بنانے والا اور یہ عشق ہے جو عاشق کو معشوق کے ہمرنگ بناتا ہے اور وہ کوشش کرتا ہے کہ وہ معشوق کا ایک جلوہ ہو اور اس (معشوق) کی روش کا ایک عکس ہو۔ جس طرح کہ خواجہ نصیر الدین طوسی شرح اشارات بو علی میں کہتے ہیں: