12%

ایک اور مثال:

اسلامی مورخین صدر اسلام کے ایک مشہور تاریخی حادثے کو ''غزوۃ الرّجیع،، اور جس دن یہ حادثہ ہوا اس کو ''یوم الرّجیع،، کا نام دیتے ہیں وہ ایک سننے والی اور دلکش داستان ہے قبیلہئ ''عضل،، اور ''قارۃ،، جن کی ظاہراً قریش کے ساتھ رشتہ داری تھی اور مکّہ کے قرب و جوار میں رہتے تھے ان کے کچھ لوگوں نے ہجرت کے تیسرے سا ل رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا! ''ہمارے قبیلے کے کچھ لوگ مسلمان ہوگئے ہیں، آپ مسلمانو ںکی ایک جماعت کو ہمارے درمیان بھیج دیجئے تاکہ وہ ہمیں دن کے معنی سمجھائیں۔ ہمیں قرآن کی تعلیم دیں اور اسلام کے اصول و قوانین ہمیں یادکرائیں۔،،

رسول اکرم نے اپنے اصحاب سے چھ اشخاص کو اس مقصد کے لیے ان کے ہمراہ بھیجا اور جماعت کی سرداری مرثد ابن ابی مرثد کو یا کسی ارو شخص کو جس کا نام عاصم بن ثابت تھا، سونپی۔ رسول خد کے بھیجے ہوئے لوگ اس گروہ کے ساتھ جو مدینہ آیا تھا، روانہ ہوگئے، یہاں تک وہ ایک مقام پر جو قبیلہئ ہذیل کی جائے سکونت تھا، پہنچے اور وہاں اتر گئے۔ رسول خد کے صحابی ہر طرف سے بے خبر آرام کر رہے تھے کہ اچانک قبیلہئ ہذیل کے ایک گروہ نے بجلی کی سی تیزی کے ساتھ ان پر ننگی تلواروں کے ساتھ حملہ کردیا۔ معلوم ہوا کہوہ گروہجو مدینہ آیا تھا یا تو شروع سے ہی دھوکہ دینے کا ارادہ رکھتا تھا یا جب وہ اس مقام پر پہچنے تو لالچ میں پڑ گئے اور اپنی بدل ڈالا۔ بہرحال یہ ظاہر ہے کہ انہوں نے قبیلہ ہذیل کے ساتھ مل کر سازش کی اور ان کا مقصد ان چھ مسلمانوں کو گرفتار کرنا تھا۔ رسول کے صحابی جوں ہی معاملے سے آگاہ ہوئے تیزی سے اپنے ہتھیاروں کی طرف لپکے اور اپنے دفاع کے لیے تیار ہوگئے۔ لیکن ہذیلیوں نے قسم کھائی کہ ہمارا مقصد تمہیں قتل کرنا نہیں بلکہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ تمہیں قریش مکہ کے حوالہ کریں اور ان سے کچھ پیسے لے لیں، ہم اب بھی تمہارے ساتھ معاہدہ کرتے ہیں کہ تمہیں قتل نہیں کریں گے۔ عاصم ابن ثابت سمیت ان میں سے تین افراد نے یہ کہہ کر کہ ہم مشرک کے ساتھ معاہدے کی رسوائی قبول نہیں کریں گے۔