12%

علی علیہ سلام کی محبت قرآن و سنت میں

گذشتہ بحثوں میںمحبت کی تاثیر اور اس کی قدر و قیمت واضح ہوگئی اور ضمناً یہ بھی معلوم ہوا کہ پاک طینت لوگوں کے ساتھ ارادت خود منزل نہیں بلکہ اصلاح اور تہذیب نفس کا ایک ذ ریعہ ہے۔ اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اسلام اور قرآن نے ہمارے لےے کسی محبوب کا انتخاب کیا ہے یا نہیں؟

قرآن سابقہ پیغمبروں کی بات نقل کرتے ہوئے کہتا ہے کہ انہوں (انبیائ) نے ہمیشہ یہ کہا ''ہم لوگوں سے کوئی معاوضہ نہیں چاہتے ہمارا اجر صرف خدا پر ہے۔،، لیکن پیغمبر خاتم سے خطاب کرتا ہے:

( قل لا اسئلکم علیه اجرا الا المودة فی القربیٰ ) (۴۲:۲۳)

''کہدو میں تم سے کوئی اجر رسالت نہیں مانگتا مگر میرے اقرباء سے محبت۔،،

یہ ایک سوال کا مقام ہے کہ کیوں سارے پیغمبروں نے کسی اجر کا مطالبہ نہ کیا اور نبی اکرم نے اپنی رسالت کا اجر طلب کیا اور لوگوں سے اپنے اقرباء کی محبت بطور اجر رسالت چاہی؟ قرآن خود اس سوال کا جواب دیتا ہے:

( قل ماسئلتکم من اجر فهو لکم ان اجری الا علی الله ) (۳۴:۴۷)

''کہہ دو جو اجر میں نے مانگا ہے وہ ایسی چیز ہے جس میں تمہارا اپنا فائدہ ہے، میرا اجر سوائے خدا کے کسی پر نہیں ہے۔،،

یعنی جو کچھ میں نے بہ عنوان اجر رسالت چاہا ہے اس کا فائدہ تمہیں پہنچے گا نہ کہ مجِھے، یہ دوستی خود تمہاری اصلاح اور تکامل کے لےے ایک کمند ہے اس کا نام ''اجر،، ہے لیکن در حقیقت ایسی بھلائی ہے جو میں تمہارے لیے تجویز کررہا ہوں۔ اس اعتبار سے کہ اہلبیت اور اقرباء پیغمبر وہ لوگ ہیں جو آلودگی کے قریب نہیں پھٹکتے اور ان کا دامن پاک و پاکیزہ ہے۔