نباتات اور حیوانات میں بھی سب جاذبہ و دافعہ کی قوت کے قائل تھے بہ این معنی کہ ان کے لیے تین بنیادی قوتوں جاذبہ (طلب غذا کی قوت) نامیہ (بڑھنے کی قوت) اور مولدہ (پیدا کرنے کی قوت) کو مانتے تھے اور قوہئ غاذیہ کے لیے چند فرعی قوتوں جاذبہ،دافعہ، ہاضمہ اور ماسکہ (روکنے کی قوت) کے قائل تھے اور کہتے تھے کہ معدہ کے اندر جذب کی ایک قوت ہے جو غذا کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور جہاں غذا کو مناسب نہیں پاتی اس کو دفع(۱) کرتی ہے۔ اسی طرح وہ کہتے تھے کہ جگر میں جذب کی ایک قوت ہے جو پانی کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔
معدہ نان را می کشد تا مستقر
می کشد مہ آب را تف جگر
معدہ کھانے کو اور جگر پانی کو ان کے ٹھکانوں تک کھینچ لے جاتا ہے۔
انسانی دنیا میں جاذبہ و دافعہ
جذب و دفع سے مراد یہاں جنسی جذب و دفع نہیں ہے، اگرچہ وہ بھی جذب و دفع کی ایک خاص قسم ہے لیکن ہماری بحث سے مربوط نہیں ہے اور اپنی جگہ ایک مستقل موضوع ہے، بلکہ وہ جذب و دفع مراد ہے جو معاشرتی زندگی میں افراد انسانی کے درمیان موجود ہے۔ انسانی معاشرے میں مشترکہ مفاد کی بنیاد پر باہمی تعاون کی چند صورتیں ہیں، وہ بھی ہماری بحث سے خارج ہیں۔
زیادہ تر دوستی و رفاقت یادشمنی اور عداوت سب انسانی جذب و دفع کے مظاہر ہیں۔ یہ جذب و دفع مطابقت و مشابہت ی ضدیت و منافرت کی بنیاد(۲) پر ہیں۔ درحقیقت جذب و دفع کی بنیادی علت کو مطابقت اور تضاد میں تلاش کرنا چاہے۔ جیساکہ فلسفیوں کی بحث میں مسلم ہے کہالسنخیة علّة الانضمام یعنی مطابقت یکجہتی کا سبب ہے۔
____________________
(۱) آج کل انسان کی جسمانی ساخت کو ایک مشین کی مانند سمجھا جاتا ہے اور دفع کے عمل کو نکاسی کی مانند۔
(۲)اس کے برعکس جو برقی رو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر دو ہمنام اجسام ( Positive ) میں داخل کی جائے تو وہ ایک دوسرے سے دفع کرتی اور ناہمنام اجسام Negetive Positive میں داخل کی جائے تو ایک دوسرے کو جذب کرتی ہے ۔