سیوطی کی روایت
جلال الدین سیوطی ، جامع الکبیر میں اس روایت کو ایک گروہ سے نقل کرتا ہے ، جن میں ابن نجار بغدادی ، ابوبکر شیرازی کی کتاب القاب، حاکم نیشاپوری کی الکنیٰ اور بزرگ حافظان حدیث میں سے حسن بن بدر کی کتاب’’مارواہ الخلفاء‘‘ شامل ہے۔
یہ سارے راوی ابن عباس سے نقل کرتے ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ ایک دن عمر بن خطاب نے کہا :اب کے بعد علی ابن ابی طالب(ع) کے بارے میں بات نہ کریں ؛کیونکہ میں نے پیغمبر اکرم(ص) سے علی(ع) کے بارے میں تین باتیں سنی ہوئی ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی ایک بھی میرے لئے ہوتی تو وہ میرے لئے ان تمام چیزوں سے بہتر ہوتی جن پر سورج کی روشنی پڑتی ہے۔(۱؎)
ہم لوگ ( ابو بکر ، ابو عبیدہ بن جراح(۲؎) اور اصحاب پیغمبر میں سے ایک اور شخص) حضور (ص) کی خدمت میں تھے ، آپ(ص)، علی ابن ابی طالب(ع)سے ٹیک لگائے ہوئے تھے، ایسے میں اپنے دست مبارک کو علی(ع) کے کندھے پر رکھا اور فرمایا :
"یاعلی!انت اول المو منین ایماناً و اوّله م اسلاماً،وانت منّ ی بمنزلة ه ارون من موس یٰ ، و کذب من زعم انّه یحبّنی و یبغضک"
اے علی(ع)!تم پہلے مؤمن ہو جو ایمان لے آیا اور پہلے فرد ہو جو اسلام لایا ، تم میرے لئے وہی حیثیت رکھتے ہو جو حیثیت موسیٰ کے لئے ہارون کی تھی ، اور وہ شخص جھوٹ بولتا ہے جو تم سے دشمنی رکھتا ہے اورمجھ سے محبت کرنے کا گمان کرتا ہے۔ ‘‘
ابن کثیر کی روایت
ابن کثیر نے بھی یہ روایت اپنی تاریخ میں لکھی ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے حضرت علی(ع) سے فرمایا :
"او ما ترضیٰ ان تکون منّی بمنزلة ه ارون من موس یٰ الاّ النّبوّة"
کیا راضی نہیں ہو کہ میرے لئے وہی ہو جاؤ جو موسیٰ کے لئے ہارون تھے،سوائے پیغمبری میں؟‘‘(۳؎)
____________________
۱۔ قابل توجہ یہ ہے کہ یہ لوگ کیوں حضرت علی(ع) کے بارے میں باتیں کرتے تھے ؟ اور کیا کچھ کہتے تھے ؟ کیوں عمر ان لوگوں کو آپ(ع)کے تذکرے سے منع کر رہا ہے؟ کیا یہ لوگ حضرت(ع) کو اچھے لفظوں سے یاد کرتے تھے ؟ اور اب عمر انہیں اس کام سے روک رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ علی(ع) کے بارے میں بات نہ کریں ؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب مل جائے تو پوشیدہ حقائق سامنے آئیں گے۔ ۲۔واضح رہے کہ مہاجرین میں سے انہی تین افرادنے سقیفہ برپا کیا تھا ۔۳۔ البدایۃ و النہایۃ: ۷/ ۳۴۰