ابتدائیہ
ادیان الٰہی میں سے آخری اور کامل ترین دین خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفے(ص) کی بعثت کے ذریعے دنیا والوں کے لئے پیش کیا گیا اور پیغام الٰہی لے کر آنے والوں کا سلسلہ آپ(ص)کی نبوت کے ساتھ ختم ہو گیا۔دین اسلام شہر مکہ میں پروان چڑھا اوررسالتمآب (ص)اور ان کے بعض با وفا دوستوں کی تیئس ( ۲۳) سالہ طاقت فرسا زحمتوں کے نتیجے میں پورے جزیرۂ عرب پر چھا گیا۔
رسول اللہ (ص) کے بعد اس راہ الٰہی کو جاری رکھنے کی ذمہ داری خداوند متعال کی طرف سے ۱۸ ذی الحجہ کو غدیر خم میں عالم اسلام کے اولین جوانمرد یعنی امیر المومنین حضرت علی(ع) کو سونپی گئی۔
اس روز حضرت علی(ع) کی ولایت و جانشینی کے اعلان کے ساتھ نعمت الٰہی اور دین اسلام کی تکمیل اور پھر دین اسلام کے خدا کا واحد پسندیدہ دین ہونے کا اعلان کیا گیا۔اس لئے کافر اور مشرکین دین اسلام کو نابود کر سکنے سے مایوس ہو گئے۔
زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ پیغمبر(ص) کے بعض اطرافی ،پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت، آپ(ص) کی رحلت کے بعد ہدایت ورہبری کی راہ کو تبدیل کر بیٹھے۔ شہر علم کے دروازے کو بند کرکے مسلمانوں کو حیرت میں ڈال دیا۔ انہوں نے اپنی حکومت کے ابتدائی دنوں میں ہی حدیث لکھنے پر پابندی لگانے ، جھوٹی حدیثیں گھڑنے، شبہات ایجاد کرنے اور شیطانی طریقوں سے حقائق کو توڑ مروڑ کرنے کے ذریعے اسلام کے سورج جیسے تابناک حقائق کو شک وتردید کی کالی گھٹاوں کی اوٹ قرار دیا۔
ظاہر یہ ہے کہ تمام سازشوں کے باوجود امیرالمومنین(ع) ، ان کے اوصیاء(ع) اور بعض باوفا اصحاب و انصار (رضی اللہ عنھم) کے توسط سے اسلام کے حقائق اور پیغمبر اکرم(ص) کے گہر بار فرامین تاریخ میں ثبت ہو گئے ہیں اور زمانے کے مختلف موڑ پر جلوہ دکھاتے ہیں۔ ان حضرات نے حقائق بیان کرنے کے ضمن میں شکوک و شبہات اور شیطان و دشمنان اسلام کے اٹھائے جانے والے سوالوں کا جواب دیا ہے۔ اور حقیقت کو ہر کسی کے لئے آشکار کر چھوڑا ہے۔