اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ایک مومن کو جب یہ احساس ہو کہ اس کا امام اس کے ساتھ ہے اور جس طرح میں دیکھتا ہوں وہ بھی دیکھ رہے ہیں اور جس طرح میں ان کے جلدی ظہور کا انتظارکر رہا ہوں وہ بھی کر رہے ہیں تویہ احساس اسے ثبات قدم اور دوگنی طاقت عطا کرتا ہے۔ اور وہ اس کے ذریعے بہت زیادہ کوشش اور سخت مشقت سے کام لیتے ہوئے اپنا تزکیہ نفس کرتا ہےاور اپنے نفس کو صبر سے کام لینے اور امام سے گہرا تعلق قائم کرنے پر آمادہ کرتاہے تاکہ اس کاشمار بھی ظہور مھدیؑ کے حقیقی منتظرین میں سے قرار پائے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اگر امامؑ کے شیعوں کے دل اپنے امامؑ سے کئے گئے عہد کو پورا کرنے کے لیے جمع ہوجائیں تو ملاقات ِامامؑ کی برکت سے محروم نہیں رہیں گے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ امامؑ سے ہماری ملاقات میں رکاوٹ ہمارے اپنے وہ اعمال ہیں کہ جو امامؑ کو ناپسند ہیں۔(۱)
کوئی اس بات میں شک نہ کرے کہ امامؑ غائب (جوکہ صرف نام کی حد تک غائب ہیں ورنہ حقیقت میں تو حاضر ہیں) کی طرف سےاپنے شیعوں کے لیے ثبات قدم اور ان کے مذہب کی حفاظت کی ذمہ داری ادا کی جارہی ہے۔جیسا کہ کوئی اس بات میں شک نہیں کرتا کہ سورج اگر بادلوں کی اوٹ میں بھی چلا جائے تب بھی اس کی ضرورت و اہمیت باقی رہتی ہےاور اس کا فائدہ پہنچتا رہتا ہے ایسا
____________________
۱:- دیکھیے احتجاج طبرسی ج۲ ص۳۲۵، بحارالانوار ج۵۳ ص۱۷۷