عبا اور چادر :
ابتداء ميں عدالت نے مجھے چھ سال كى قيد سنائي _ ميں نے سوچا اس مرتبہ جيل ميں اپنا كام مكمل كرلوں گا _ ليكن جناب آيت اللہ خوانسارى كى سفارش پر نظرثانى كرتے ہوئے ميرى سزا ميں تين سال كى تخفيف كر دى گئي _ مجھے اندازہ ہوگيا كہ ميں اپنا كام پايہ تكمل تك نہيں پہنچا سكوں گا _ لہذا ميں نے ان كاپيوں كو جيل سے باہر منتقل كرنے كا فيصلہ كرليا _ ہميشہ اس بات كى پريشانى رہتى تھى كہ كہيں ميرى تمام محنت و زحمت كا ما حصل ساواكيوں كے ہتھے نہ چڑھ جائے اور وہ اسے ضبط نہ كرليں _ كيوں كہ اس طرح كى تكاليف ، ركاوٹيں اور كمينگى ہم نے بہت ديكھى تھى دوست احباب بھى اسطرح كے خدشات كا اظہار كرتے رہتے تھے_ ادھر خدا نے بھى راہ نجات پيدا كر دى جيل كى ملاقات كے دوران عام طور پر ہم شيشہ كے پيچھے سے انٹركام پر بات كيا كرتے تھے _ ليكن آہستہ آہستہ يہ پابندياں نرم پڑتى گئيں اور ہم خلاف معمول ملنے كے ليئے آنے والوں كے ساتھ آمنے سامنے بيٹھ كر ملاقات كرنے لگے _ ميں ہر ملاقات ميں پريشانى واضطراب كے ساتھ اپنى عبا كے نيچے سے ايك آدھ يا چند ايك كاپياں اپنى بيگم كے ہاتھ ميں تھما ديتا وہ بھى اپنى مخصوص شجاعت كے ساتھ تمام خطرات مول ليتے ہوئے انہيں اپنى چادر ميں چھپاليتى _ ميرى بيگم جانتى تھى كے ميرے كام كا ماحصل ميرے ليئے اور ہمارے اسلامى معاشرے كے ليئے كس قدر اہميت ركھتا ہے لہذا وہ اسے جيل سے باہر لے جاتيں اور خدا كا شكر ہے كہ اس كے لطف و كرم سے كوئي خطرہ پيش نہ آيا _
قيد خانے سے باہر :
قيد كے آخرى سال اسلامى انقلاب كى تحريك اپنے عروج پر تھى انتہائي واضح طور پرنظر آرہا تھا كہ پہلوى حكومت كا منحوس نظام اب نابود ہونے والا ہے قيديوں كو معاف كيا جارہا تھا _ آخرى دنوں ميں بہت سارے قيدى ايسے بھى تھے جن كى مدت قيد ختم ہوچكى تھى ليكن انہيں اس آمرانہ حكومت نے خلاف قانون زبر دستى جيل ميں روكا ہوا تھا _ ايسے قيديوں كو '' ملت كے قاتل'' كہا جاتا تھا_ ميرى اس تين سالہ قيد كے آخرى دس دن معاف كرديئے گئے _ اسطرح انقلاب كى كاميابى سے پہلے ہى آزاد ہوگيا اب كوئي زيادہ بازپرس بھى نہيں تھى لہذا تمام تحريريں اپنے ساتھ گھر لے آيا _ ارادہ تھا كہ گھر ميں قرآن پر يہ كام