إِنَّ الَّذِينَ آمَنُواْ وَالَّذِينَ هَادُواْ وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحاً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ ( ۶۲ )
جو لوگ بظاہر ايمان لائے يا يہودى ، نصارى اور ستارہ پرست ہيں ان ميں سے جو واقعى اللہ اور آخرت پر ايمان لائے گا اور نيك عمل كرے گا اس كے لئے پروردگار كے ہاں اجر و ثواب ہے اور كوئي حزن و خوف نہيں ہے _
۱_ مسلمان، يہود، نصرانى اور صائبين اگر اللہ تعالى پر حقيقى اور سچا ايمان ركھيں ، قيامت كا يقين كريں اور نيك اعمال انجام ديں تو انہيں بہت عظيم اجر ملے گا _ان الذين آمنوا فلهم أجرهم عند ربهم ''الذين آمنوا'' سے مراد مسلمان ہيں _ صابئين كے مذہب كے بارے ميں مختلف آراء موجود ہيں _ علامہ طباطبائي مختلف اقوال كا ذكر كرنے كے بعد بيان فرماتے ہيں كہ صابئين كا مذہب يہوديت، مجوسيت اور حرّانيت سے ملا جلا تھا_
۲ _ مسلمانوں ، يہوديوں نصارى اور صائبين كے ہر طرح كے خوف و اندوہ سے دور رہنے كى شرط اللہ تعالى پر حقيقى ايمان، قيامت كا يقين اور صالح اعمال كا انجام دينا ہے_ان الذين آمنوا و لا خوف عليهم و لا هم يحزنون
'' ان الذين آمنوا'' اور '' من آمن'' ميں ايمان كا تكرار اس امر كى حكايت كرتاہے كہ '' من آمن'' ميں حقيقى اور سچا ايمان مراد ہے نہ كہ لفظى اور ظاہري
۳ _ خود كو اديان الہى كى جانب بغير حقيقى ايمان اور نيك اعمال كے نسبت دينا سعادت كا باعث نہيں ہے_
ان الذين آمنوا من آمن بالله و اليوم الآخر و عمل صالحاً فلهم أجرهم ''من آمن ...'' ميں كوئي ضمير نہيں جو ''الذين ...''كى طرف لوٹتى ہو پس '' من آمن ...''سے مراد مسلمان، يہودى ، يا كون مراد ہے ؟ مشخص نہيں _ اس سے معلوم ہوتاہے جو قوم بھى اللہ تعالى اور قيامت پر حقيقى اور سچا ايمان ركھے اور صالح اعمال انجام دے تو سعادت مند ہوگى _ بنابريں ان عناوين كو لانا مختلف نكات كى طرف اشارہ ہے ان ميں سے ايك يہ ہے كہ مسلمان ہونا ، يہودى ہونا يا كافى نہيں ہے بلكہ حقيقى ايمان اور صالح عمل ہى كا رساز ہے _